1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’امریکی کمپنیاں لیبیا کے باغیوں سے تیل خرید سکتی ہیں‘

28 اپریل 2011

واشنگٹن حکومت نے امریکی کمپنیوں کو لیبیا کے باغیوں سے تیل خریدنے کی اجازت دے دی ہے۔ یوں اوباما انتظامیہ نے پابندیاں نرم کرتے ہوئے باغیوں کی مالی مدد کرنے کی راہ نکال دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1151u
تصویر: AP

تاہم تیل کمپینیوں کو لیبیا کی عبوری قومی کونسل سے ہونے والے لین دین کے بارے میں اپنی وزارت خزانہ کو پوری معلومات دینا ہوں گی۔ اس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ان کےسودوں سے طرابلس حکومت یا اس سے متعلقہ لوگوں کو کسی طرح کا فائدہ نہیں پہنچ رہا۔

باغیوں کی اس کونسل نے امریکی حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’لیبیا کے عوام بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈٹے رہیں گے۔ ان کے لیے خوراک کی فراہمی، سلامتی اور ان کے خاندانوں کی حفاظت کے لیے تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی ضروری ہے۔ یہ رقم مستقبل کی مستحکم ریاست کے قیام کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہم اپنی برآمدات پر عائد پابندیاں نرم کرنے پر امریکی حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں‘۔

دوسری جانب لیبیا کے لیے امریکی سفیر جین کریٹز نے کہا ہے کہ وہاں جاری بحران میں مرنے والوں کی تعداد 10 سے 30 ہزار کے درمیان ہو سکتی ہے لیکن اصل تعداد کا پتہ لڑائی کے بعد ہی چلے گا۔

Misrata Libyen
امریکی سفیر کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد کا پتہ لڑائی ختم ہونے پر چلے گاتصویر: ap

جین کریٹز نے واشنگٹن میں بتایا کہ لڑائی ختم ہونے تک یہ طے کرنا مشکل ہے کہ اصل میں وہاں کتنے لوگ ہلاک ہوئے۔ انہوں نے کہا، ’ہمیں باقاعدگی سے طرابلس اور ملک کے مغربی علاقوں سے لاشیں ملنے کی خبریں مل رہی ہیں۔ جب تک یہ سب کچھ ختم نہیں ہو جاتا، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کتنے بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوا ہے‘۔

کریٹز نے کہا کہ قذافی کی فورسز کی جانب سے اپنے ہی اعلان کردہ سیز فائر پر عملدرآمد کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا اور وہ مصراتہ پر مسلسل حملے کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’قذافی اور ان کی فورسز تشدد روکنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں۔ حالیہ دنوں کے دعووں کے باوجود وہ ظلم ڈھانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں‘۔

رپورٹ: ندیم گِل/ خبر رساں ادارے

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں