انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن اور پاکستان کی صورتحال
31 مئی 2016اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کی جانب سے اس برس تمباکو نوشی کے خلاف عالمی دن ’سگریٹ کی سادہ پیکینگ کے لیے تیار ہو جاو‘ کے عنوان سے منایا جا رہا ہے۔ اس کے تحت یہ زور دیا جا رہا ہے کہ تمباکو نوشی کی جانب راغب کرتے رنگوں اور برانڈ ناموں کو سگریٹ کی ڈبیوں سے ہٹا دیا جائے تاکہ ان سے ’گلیمرائزیشن‘ کو کم کیا جا سکے۔
تمباکو نوشی کے خلاف وزارت صحت کے قائم کردہ ادارے ’ٹوبیکو کنٹرول سیل‘ کے مطابق اس وقت ملک میں ایک اندازے کے مطابق 22 سے 25 ملین افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ ان اعداد وشمار کے مطابق تقریباً 36 فیصد مرد جبکہ 9 فیصد خواتین تمباکو نوشی کرتی ہیں۔ ایک اور اندازے کے مطابق ملک میں سالانہ ایک لاکھ سے زائد افراد کی موت تمباکو نوشی کے باعث ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان 15 ممالک میں ہوتا ہے، جہاں تمباکو کی پیداوار اور استعمال سب سے زیادہ ہے۔ غیر سرکاری تنظیم ’نیٹ ورک فار کنزیومر پروٹیکشن‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں پانچ لاکھ سے زائد دکانیں اور پان کے کھوکھوں پر سگریٹ با آسانی دستیاب ہے۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ملک میں روزانہ تقریباً 1200 بچے سگریٹ نوشی کا آغاز کر رہے ہیں یعنی تمباکو نوشی کی جانب قدم بڑھانے والے ہر پانچ میں سے دو کی عمر دس سال ہے۔
آغا خان ہسپتال میں میڈیسن کے پروفیسر اور نیشنل الائینس فار ٹوبیکو کنٹرول کے چئیرمین ڈاکٹر جاوید خان کے مطابق تمباکو نوشی کے باعث بڑھتی اموات اور بیماریاں بے حد تشویش کا باعث ہیں، ’’نہ صرف دل کا دورہ، اسٹروک، ہائپرٹینشن، پھیپھڑوں کے متعدد امراض بلکہ بیس اقسام کے کینسر بھی تمباکو نوشی کے باعث لاحق ہو رہے ہیں۔ اگر تمباکو نوشی کو قابو نہ کیا گیا تو یہ صرف صحت ہی نہیں بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر جاوید خان کے مطابق، ’’ملک میں سن 2015 کے دوران تقریباً 250 بلین روپے کی 64.5 بلین سگریٹ خریدی گئی جبکہ تقریبا اتنی ہی لاگت میں نسوار، گٹکا، پان، شیشہ غرض کسی نہ کسی شکل میں تمباکو کا استعمال کیا گیا۔‘‘
ڈاکٹر جاوید خان کے مطابق ملک میں تمباکو نوشی کو قابو کرنے کے لیے حال ہی میں ملک کے کئی بڑے ہسپتالوں کے معروف ڈاکٹروں نے ایک پیٹیشن پر دستخط کیے ہیں، جس میں زور دیا گیا ہے کہ ملک میں تمباکو نوشی کی تیزی سے پھیلتی لت پر قابو پانے کے لیے انسداد تمباکو نوشی قوانین پر عمل درآمد کروایا جائے۔
جاوید خان نے کہا، ’’فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ 2002ء کے صحت آرڈینینس کے مطابق عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی اور تمباکو نوشی نہ کرنے والے افراد کی صحت کی حفاظت کے لیے بنائے گئے بل پر سنجیدگی سے عمل درآمد کیا جائے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ تمام عوامی مقامات اور ذرائع آمدورفت میں تمباکو نوشی کی سخت ممانعت کی جائے۔ اس کے علاوہ خطے میں تمباکو پر سب سے کم ٹیکس پاکستان میں نافذ ہے، اس کو آنے والے بجٹ میں بڑھایا جائے اور اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو کسی بھی طرح کا تمباکو نہ فروخت کیا جائے۔‘‘
عالمی ادارہ صحت نے اپنے اعداد و شمار کے مطابق سالانہ بنیادوں پر دنیا بھر میں ساٹھ لاکھ افراد کی ہلاکت کا سبب تمباکو نوشی بتائی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر سگریٹ نوشی کا رُجحان یونہی بڑھتا رہا تو دُنیا بھر میں 2030ء تک تمباکو نوشی کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد سالانہ 60 لاکھ سے بڑھ کر 80 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔