'اپنے جگر کے ٹکڑوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے‘
13 نومبر 2019جرمن پولیس بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ان واقعات میں ملوث ہونے کے شبے میں اب تک کم از کم آٹھ افراد کو گرفتار کر چکی ہے۔ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ ابھی تک جنسی زیادتی کا شکار بننے والے نو بچوں کو پتا لگایا گیا ہے اور ان کی عمریں تقریباً ایک سال سے گیارہ سال کے درمیان ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ابھی تک جو مواد قبضے میں لیا گیا ہے وہ تقریباً دس ٹیرابائٹ ہے۔ اس دوران اس مواد کی جانچ پڑتال جاری ہے۔
پولیس کے مطابق ان میں ایسا بہت سا مواد ہے، جسے دیکھ کر پولیس اہلکار بھی شدید حیرت آ گئے اور انہیں بھی نفسیاتی مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس مواد کی جانچ پڑتال کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کو باقاعدہ وقفہ دیا جاتا ہے، جس میں ماہر نفسیات ان سے بات چیت کرتا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ ان ویڈیوز میں ملزموں کے اپنے، سوتیلے اور دیگر رشتہ داروں کے بچے بھی شامل ہیں۔ الزام ہے کہ یہ افراد جنسی زیادتی کی تصاویر کھینچتے اور ویڈیوز بنا کر ایک دوسرے کو بھیجتے تھے۔ پولیس نے بتایا کہ دیگر افراد کی تلاش کے ساتھ ساتھ کم از کم نو متاثرہ بچوں کو نفسیاتی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ان واقعات کی تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ پر جاری کی جاتیں اور اس گروپ کے ہزاروں ارکان انہیں دیکھتے تھے۔ ماہر نفسیات ارزولا اینڈرز کے مطابق، ''جب ان بچوں کو یہ علم ہو گا کہ ان کی تصاویر اور ویڈیوز انٹرنیٹ پر موجود ہیں تو یہ کبھی بھی اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کو بھلا نہیں سکیں گے۔‘‘ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان واقعات کی جلد از جلد چھان بین مکمل کی جائے۔
بتایا گیا ہے کہ حکام بچوں کے جنسی مواد کے ایک اور مقدمے کی چھان بین کر رہے تھے کہ انہیں برگش گلاڈ باخ کے ایک ایسے بیالس سالہ شخص کے بارے میں پتا چلا، جو اسی طرح کی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ اس کے فوری بعد کولون شہر کی پولیس سے رابطہ کیا گیا اور کارروائی کی تیاری کی گئی۔ برگش گلاڈ باخ کولون سے متصل ایک چھوٹا شہر ہے۔
تاہم اُس وقت مشتبہ شخص اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ چھٹیاں منانے گیا ہوا تھا۔ اس شخص کی واپسی پر اس کے گھر کی تلاشی لی گئی اور اس دوران خوفناک تصاویر اور ویڈیوز قبضے میں لی گئی۔ پھر اس کے ٹیلیفون سے ہونی والی چیٹ سے دیگر مشتبہ افراد کا پتا لگایا گیا۔ پولیس کے مطابق ان واقعات کا دائرہ ممکنہ طور پر جرمنی کے ساتھ ساتھ یورپ کے دیگر شہروں تک میں پھیلا ہو سکتا ہے۔