ایتھنز میں دو سو سال بعد پہلی مسجد
7 نومبر 2020برسوں کی تاخیر کے بعد جمعے کو ایتھنز میں سرکاری خرچ سے قائم کی گئی پہلی مسجد کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھول دیے گئے۔ سن 1833 کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ سرکاری خرچ سے قائم کی گئی ایک مسجد میں جمعے کی نماز ادا ہوئی۔ ایتھنز میں پاکستان، شام، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے لاکھوں تارکين وطن موجود ہیں، تاہم اس شہر میں کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی۔ دو سو برس قبل یونانی فورسز نے اس شہر کا قبضہ سلطنت عثمانیہ سے واپس لیا تھا۔
آیا صوفیہ کی حیثیت: ترکی پر یورپی یونین کی تنقید
نصف صدی بعد سلووینیہ کے مسلمانوں کی سن لی گئی
ایتھنز میں مسلمانوں کے لیے ایک باقاعدہ مسجد کا منصوبہ کئی دہائیاں پرانا ہے، تاہم ملک میں مسیحی آرتھوڈاکس اکثریت اور قوم پرستوں کی مسلسل مخالفت کی وجہ سے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا اور تاخير کا شکار رہا۔ اس تاخیر کی ايک وجہ پچھلے دس برس میں یونان کی خراب مالیاتی حالت بھی تھی۔
وبا کے دنوں میں مسجد میں پہلی نماز
جمعے کے روز اس مسجد میں پہلی بار باجماعت نماز ادا کی گئی تو اس دوران کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں نمازیوں کے درمیان فاصلہ رکھ کر اور سماجی دوری سے متعلق دیگر ضوابط پر عمل کیا گیا۔
اس موقع پر مسجد کی انتظامی کونسل کے ایک رکن اشیر حیدر نے کہا، ''ایتھنز میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے یہ ایک تاریخی موقع ہے۔ ہم اس مسجد کا انتظار ایک طویل عرصے سے کر رہے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ بلآخر ہمارے پاس ایک مسجد ہے، جو ہمارے لیے کھلی ہے اور جہاں ہم آزادی سے نماز ادا کر سکتے ہیں۔‘‘
یہ بات بھی اہم ہے کہ یونان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کی روک تھام کے لیے نافذ کردہ لاک ڈاؤن کے تناظر میں آج ہفتے کے روز سے 30 نومبر تک ملک بھر میں تمام تر باقاعدہ عبادتی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
یہ کیسی مسجد ہے؟
اس مسجد کے قیام پر مسلمانوں کی بڑی تعداد خوش ہے، تاہم کچھ نمازیوں نے مسجد کی عمارت پر ناخوشی کا اظہار کیا۔ یہ سرمئی رنگ کی مستطیل شکل کی عمارت ہے، جس میں نہ کوئی گنبد ہے اور نہ مینار۔ یعنی یہ مسجد یورپ کے دیگر مقامات پر موجود روایتی مساجد سے بالکل مختلف ہے۔
یونان کی مسلم ایسوسی ایشن کے سربراہ نعیم القندور نے کہا، "یہ عبادت کی جگہ نہیں لگتی۔ یہ چھوٹی ہے، چوکور ہے اور بری عمارت ہے۔ ہم اس حکومتی پیش کش کا شکریہ ادا کرتے ہیں مگر ہم اس درجے کےحصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، جس کے ہم مستحق ہیں۔‘‘
ع ت، ع س (روئٹرز، اے ایف پی)