ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات میں بہتری کے اشارے
13 اگست 2017عراق کے وزیر داخلہ قاسم العراجی نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت سعودی عرب اور ایران کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے کوششں جاری رکھے ہوئے ہے۔ عراقی وزیر داخلہ کا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سعودی عرب کے شاہی خاندان کے افراد نے عراق پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تہران کے ساتھ پائی جانے والی کشیدگی میں کمی کے لیے کردار ادا کرے۔
جنوری دو ہزار سولہ میں سعودی عرب نے ایران کے ساتھ اس وقت سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے، جب احتجاج کرتے ہوئے ایرانی شہریوں نے تہران میں واقع سعودی سفارت خانے پر حملہ کر دیا تھا۔ ایرانی شہری یہ احتجاج ایک شیعہ عالم کو سعودی عرب میں دی جانے والی پھانسی کے رد عمل میں جاری رکھے ہوئے تھے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے اس وقت سعودی سفارت خانے پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ وہ سفارت خانے کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے تیار ہیں لیکن ان کی یہ پیش کش سعودی عرب نے مسترد کر دی تھی۔ اب دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد حسن روحانی سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے کوششیں شروع کر چکے ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے بھی عراقی حکام سے رابطے کیے ہیں۔
عراقی شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کا سعودی عرب کا غیر عمومی دورہ
عراق شیعہ اور سنی آبادی پر مشتمل ایک ملک ہے۔ حال ہی میں طاقتور عراقی شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر نے سعودی عرب کا ایک غیرمعمولی دورہ کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے سعودی ولی عہد اور دیگر اعلیٰ سعودی حکام سے بھی ملاقاتیں کیں تھیں۔ شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کو تہران حکومت کا انتہائی قریبی ساتھی تصور کیا جاتا ہے۔ سعودی میڈیا کے مطابق اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے باہمی مفادات پر گفتگو کی تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس ملاقات میں ایران کے ساتھ سعودی تعلقات پر بھی بات چیت کی جانا ایک فطری عمل تھا۔ جرمن نیوز ایجنسی دی پی اے کے مطابق اس ملاقات نے سعودی عرب نے شیعہ اکثریتی علاقے نجف میں ایک سفارت خانہ کھولنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ ممکنہ طور پر ایرانی زائرین کو حج کے لیے ویزے عراق سے جاری کیے جا سکتے ہیں۔
دریں اثناء طاقتور عراقی شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر آج متحدہ عرب امارات کا بھی دورہ کر رہے ہیں۔ مقتدیٰ الصدر کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق انہیں امارات کا ایک خصوصی طیارہ واپس عراق چھوڑ کر جائے گا۔