ایران میں الیکشن کا دوسرا مرحلہ، روحانی کے لیے چیلنج
29 اپریل 2016امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایرانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ انتیس اپریل بروز جمعہ ہونے والے ان انتخابات کے نتائج واضح کریں گے کہ ملکی پارلیمان میں اکثریت کٹر نظریات کے حامل گروپ کی ہو گی یا اعتدال پسند صدر حسن روحانی کی حمایت کرنے والے سیاستدانوں کی۔ اس تناظر میں دوسرے مرحلے کے انتخابات کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
ان انتخابات میں ایرانی پارلیمان کی کل نشستوں 290 میں سے 68 نشستوں پر پولنگ ہو رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ان انتخابات کے نتائج ہفتے تک متوقع ہیں۔ ایران اور مغربی طاقتوں کے مابین جوہری ڈیل کے بعد ایران کے یہ پہلے انتخانات ہیں۔ اس لیے عالمی برداری بھی اس الیکشن کا بغور مشاہدہ کر رہی ہے۔
فروری میں منعقد ہونے والے ان انتخابات کے پہلے مرحلے میں صدر حسن روحانی کی حامی اصلاحات و اعتدال پسند طاقتوں نے معمولی سبقت حاصل کی تھی۔ تب ووٹ ڈالنے کی شرح باسٹھ فیصد تھی۔ حسن روحانی کے گروپ کو پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے چالیس مزید نشستوں پر کامیابی درکار ہے۔ ایران کی نئی پارلیمان مئی سے کام کرنا شروع کرے گی۔ عوامی جائزوں کے مطابق اس مرحلے میں قدامت پسند روحانی کو سخت مقابلہ دے سکتے ہیں۔
صبح آٹھ بجے شروع ہونے والی پولنگ میں ایران کے مختلف شہروں اور علاقوں میں سترہ ملین ووٹرز پچپن حلقوں میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے۔ ان انتخابات کے پہلے مرحلے میں اعتدال پسندوں نے تہران کی تمام یعنی تیس نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی تھی۔
صدر حسن روحانی کا اعتدال پسند دھڑے نے مجموعی طور پر اٹھاون امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پولنگ کا عمل شام چھ بجے تک جاری رہے گا لیکن یہ امر اہم ہے کہ اس شیعہ اکثریتی ملک میں ووٹنگ کا ٹائم اکثر بڑھا دیا جاتا ہے۔
گزشتہ کئی دنوں سے ایرانی حکومت نے عوام پر زوردینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے کہ وہ اپنا حق رائے دہی ضرور استعمال کریں۔ اس تناظر میں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایک بیان میں کہا، ’’دوسرے مرحلے کے انتخابات کی اہمیت پہلے مرحلے کے مقابلے میں ہرگز کم نہیں ہے۔ تمام ووٹرز کو چاہیے کہ وہ اس مرحلے میں بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔ ان انتخابات میں شرکت فیصلہ کن ہو گی۔‘‘
ان انتخابات کو صدر حسن روحانی کی پالیسیوں کے لیے ایک ریفرنڈم قرار دیا جا رہا ہے۔ اگرچہ ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جوہری ڈیل طے پا چکی ہے لیکن ایران کے کئی حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اس سے ایران کی اقتصادیات پر کوئی مثبت اثر ظاہر نہیں ہوا ہے۔