ایردوآن کے حریف اپوزیشن صدارتی امیدوار ’ترک گاندھی‘ کون؟
9 مارچ 2023ترکی میں حزب اختلاف آئندہ صدارتی انتخابات میں طویل عرصے سے برسر اقتدار رہنے والے صدر رجب طیب ایردوآن کوچیلنج کرنے کے لیے مشترکہ امیدوار کی تلاش میں تھی۔ اب آخرکار انہیں ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے رہنما کمال کلیچ دار اولو کی شکل میں 14 مئی کے انتخابات میں ایردوآن کا مد مقابل مل گیا ہے۔
ترکی میں جمہوریت کے اتار چڑھاؤ کے سو سال
'بیوروکریٹ آف دی ایئر‘
کمال کلیچ دار اولو سن 1948 میں مشرقی اناطولیہ کے صوبے تونجیلی کے ایک گاؤں میں ایک سرکاری ملازم کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان علوی ہے، جو ترکی میں ایک نسلی مذہبی اقلیت ہے۔ وہ سات بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر اور یونیورسٹی جانے والے گھر کے پہلے فرد تھے۔
کلیچ دار اولو نے انقرہ میں اکنامکس اور فنانس میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ان کی پہلی ملازمت سن 1971 میں ترکی کی وزارت خزانہ اور مالیات میں مشیر کے طور پر تھی۔ بعد میں انہیں سن 1992 میں ملکی سوشل سکیورٹی اتھارٹی (ایس ایس کے) کا ڈائریکٹر نامزد کیا گیا ۔ اس کے دو سال بعد ایک مالیاتی میگزین نے انہیں ''سال کا بہترین بیوروکریٹ‘‘ منتخب کیا۔ وہ سن 1999 میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔
وہ اپنی ایمانداری اور ایک قابل بھروسہ شخصیت ہونے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ یہ ایسی خوبیاں ہیں جنہیں سیاست میں اور خاص طور پر ترکی میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ ایک بیوروکریٹ کی حیثیت سے انہوں نے بد عنوانی کا مقابلہ کیا۔ کئی سال انشورنس کے کام سے منسلک رہنے کی وجہ سےکہا جاتا ہے کہ وہ بھوسےکے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے ماہر ہیں۔
ان کی جماعت سی ایچ پی کے ایک رکن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' کلیچ دار اولو سرکاری دستاویزات سے بھرے کمرے میں کسی بھی بے ضابطگی اور بدعنوانی کی فوری شناخت کر سکتے ہیں۔‘‘ اس رکن کا مزید کہنا تھا، ''عمل میں ایماندار رہنا نہ صرف ایک نیکی ہے بلکہ ایک ضرورت بھی ہے۔‘‘
سیاست میں ایک نیا کیریئر
کلیچ دار اولو نے اپنے لیے ایک ایسے بیوروکریٹ کے طور پر عوامی نام بنایا جو بدعنوانی کے خلاف سخت تھا۔ ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز بدعنوانی کے بارے میں ایک رپورٹ سے ہوا جو انہوں نے سیکیولر، سینٹر لیفٹ کی حامی سی ایچ پی کے لیے تیار کی تھی۔ اس رپورٹ کو پارٹی کے اس وقت کے رہنما دینیز بیکال نے خوب پذیرائی بخشی تھی اور اس نے کلیچ دار اولو کو سیاست میں آنے کے لیے شہہ دی۔ انہوں نے 2002 ء کے انتخابات میں ترک پارلیمنٹ کی ایک نشست جیتی تھی۔ یہ وہی سال تھا، جب موجودہ صدر ایردوآن اقتدار میں آئے تھے۔
سن 2007 میں کلیچ دار اولو سی ایچ پی کے پارلیمانی گروپ کے ڈپٹی اسپیکر بن گئے۔ ترکی میں بدعنوانی کے شواہد شائع کرنے کے بعد ان کی میڈیا میں موجودگی میں نمایاں اضافہ ہوا۔ ایردوآن کی قدامت پسند جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) پارٹی کے متعدد نائبین کے ساتھ چند گرما گرم بحثوں نے ان کی شہرت کو بڑھایا۔ انہوں نے سن 2009 میں استنبول کے میئر کے عہدے کے لیے انتخاب لڑا لیکن وہ اےکے پی کے امیدوار سے ہار گئے۔
ایک جنسی ٹیپ کی مرہون منت پارٹی سربراہی
ایک جنسی اسکینڈل کی وجہ سے سن 2010 میں سی ایچ پی کے دیرینہ سربراہ بیکال کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس کے بعد کلیچ دار اولو اپنی جماعت کی کانگریس کے تمام ووٹ حاصل کر کے نئے پارٹی سربراہ منتخب ہو گئے۔ لیکن اس کے بعد سے ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ آج جب لیڈر کی بات آتی ہے تو پارٹی کی بنیاد اس بارے میں منقسم ہے۔
کلیچ دار اولو نے2017 ء میں انقرہ سے استنبول پیدل مارچ کر کے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ انہوں نے اے کے پی کی حکومت کے بڑھتے ہوئے جبر کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے اپنے حامیوں کے ہمراہ ''مارچ فار جسٹس‘‘ احتجاجی مہم کے ایک حصے کے طور پر تقریباً 450 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ اس پچیس روزہ مارچ نے سی ایچ پی سے تعلق رکھنے والے ایک سیاست دان اور صحافی اینیس بیربر اولو کو قید کی سزا دیے جانے پر جنم لیا تھا۔
'میں کبھی پریشان نہیں ہوتا‘
کلیچ دار اولو ُپرسکون رہنے کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کے عرفی ناموں میں ''گاندھی کمال‘‘ یا ''ترکی کا گاندھی‘‘ بھی شامل ہیں۔ یہ نام انہیں مہاتما گاندھی کی شکل اور انداز سے مشابہت کی وجہ سے دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں ''خاموش قوت‘‘ اور''جمہوری چچا‘‘ کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔
کلیچ دار اولو نے ایک بار اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ کبھی پریشان نہیں ہوتے۔ ان کی اہلیہ سیلوی کلیچ دار اولو نے کاکہنا ہے، ''وہ اچھے اور بہت پرسکون ہیں بلکہ تھوڑے زیادہ ہی پرسکون ہیں۔کمال کبھی اونچی آواز نہیں اٹھاتے وہ کبھی چلاتے نہیں۔ آپ ان کے ساتھ معقول بحث بھی نہیں کر سکتے۔ یہ حقیقت کہ وہ بہت خاموش طبع ہیں کبھی کبھی مجھے پاگل کر دیتی ہے۔‘‘
مبینہ طور پر وہ ترکی میں کسی بھی دوسرے سیاستدان کے مقابلے میں زیادہ جسمانی اور قاتلانہ حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ انہی حملوں کے سلسلے میں انہیں سن 2019 میں انقرہ میں ایک ہجوم نے بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔
ترکی میں الیکشن ’غیر منصفانہ‘ تھے، بین الاقوامی مبصرین
سی ایچ پی کے ایک سیاست دان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حملے کے بعد "ہم ان کے دروازے کے باہر انتظار کر رہے تھے۔ وہ باہر آئے۔ ان کے چہرے پر زخم تھے لیکن وہ بالکل بھی ناخوش نہیں لگ رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنے دفتر میں بلایا اور چائے کا آرڈر دیا۔ ہمیں کہا کہ چیزوں کو حد سے زیادہ مت اچھالیں۔ ہم ان سے زیادہ غصے میں اور مشتعل تھے۔ لیکن وہ بالکل پرسکون رہے بالکل ایسے کہ گویا ہم وہ لوگ ہیں جو ہجوم کے ہاتھوں بچ گئے تھے، وہ نہیں۔‘‘
کلیچ دار اولو کرد ملیشیا (پی کے کے) کے مسلح حملے، پارلیمنٹ پر حملے، اور سن 2017 میں انصاف کے لیے کیے گئے مارچ کے دوران داعش کے بم حملے میں بھی بچ گئے۔
کیا وہ بہترین امیدوار ہیں؟
اس کے مثبت امیج کے باوجود عوام نے برسوں سےکلیچ دار اولو پر ایردوآن کے مقابلے میں ایک موزوں امیدوار نہ ہونے کا الزام لگایا ہے۔ اس کی وجہ کلیچ دار اولو کی شخصیت میں کرشمے کی کمی قرار دی جاتی ہے۔
چھ جماعتی اپوزیشن اتحاد کی انہیں مشترکہ امیدوار نامزد کرنے کے حوالے سے رائے دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ سی ایچ پی اور پانچ دیگر اپوزیشن جماعتیں ایک سال سے زیادہ عرصے سے ایردوآن کے خلاف جیت کے امکانات بڑھانے کے لیے مل کر کام کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں فریقین''ٹیبل آف سکس‘‘ کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے کئی بار اکٹھے ہوئے۔
ٹیبل آف سکس تقریباً پانچ جماعتوں کا ٹیبل بن گیا تھا کیونکہ اس اتحاد میں شامل دوسری سب سے بڑی دائیں بازو کی قوم پرست ایی پارٹی یا 'اچھی جماعت‘ نے کلیچ دار اولو کی نامزدگی واضح ہونے کے بعد اس اتحاد سے الگ ہونے کی دھمکی دی تھی۔ اس جماعت کی رہنما اور سابقہ وزیر داخلہ میرل اکسینر کئی مہینوں سےکلیچ دارو اولوکی امیدواری کے خلاف مہم چلا رہی تھیں، اور یہ دلیل دے رہی تھیں کہ جو شخص ''ایردوآن کے خلاف جیت سکتا ہے، اسے انتخاب لڑنا چاہیے۔‘‘ ان خاتون رہنما کی رائے میں کلیچ دار اولو ایک مناسب امیدوار نہیں ہیں۔ درحقیقت کلیچ دار اولو نے کبھی الیکشن نہیں جیتا۔
اب پس پردہ مذاکرات کی ہلچل کے بعد لگتا ہے کہ اپوزیشن کا بحران فی الحال حل ہو گیا ہے۔ اکسینر یہ کہتے ہوئے واپس میز پر آگئی ہیں کہ وہ کلیچ دار اولو کی امیدواری کی حمایت کرتی ہیں۔ اب یہ وقت بتائے گا کہ آیا یہ کشیدہ اتحاد مئی میں انتخابی فتح کے لیے کافی ہوگا۔
گلشن سولاکر، براک انویرن ( ش ر⁄ ع آ)