ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا
21 اکتوبر 2022ایف اے ٹی ایف کے صدر راجا کمار نے پریس کانفرنس کے دوران پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا اعلان کیا۔ کمار کے مطابق پاکستانی حکام نے دو مختلف ایکشن پلانز کے دوران 35 مختلف نکات پر عمل کر کے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے انسداد کے قوانین بہتر بنائے ہیں۔
رواں ماہ کے اوائل ہی میں ڈی ڈبلیو کے نمائندے یونس خان نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ ستمبر میں پاکستان کا دورہ کرنے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے وفد نے پاکستان سے متعلق مثبت رپورٹ پیش کی تھی۔
پاکستان کے طرف سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کو روکنے کے حوالے سے بنائے گئے قوانین اور ان قوانین پر عمل درآمد کے حوالے سے اس وفد نے جہاں اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے وہاں پاکستانی حکومت کو کچھ نکات پر مزید کام کا کہا ہے لیکن مجموعی طور پر پاکستانی حکومت کے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد اب 21 اکتوبر کو پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس'ایف اے ٹی ایف‘ یا فیٹف کا اجلاس فرانس کے دارالحکومت پیرس میں 18 اکتوبر سے 21 اکتوبر تک جاری رہا۔ 21 اکتوبر کی شام ایف اے ٹی ایف کے صدر نے پریس کانفرنس میں مختلف ممالک کے گرے یا بلیک لسٹ میں رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے فیصلوں سے آگاہ کیا۔ گزشتہ اجلاس جون میں برلن میں ہوا تھا۔
پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟
پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات اس لیے بڑھ گئے تھے کیونکہ پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے تقریباﹰ تمام اہداف پورے کر دیے تھے۔
حکومت پاکستان نے یورپی ممالک کے ساتھ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے حوالے سے پچھلے کچھ مہینوں میں سفارت کاری میں سنجیدگی دکھائی ہے۔ پاکستانی وزراء اور وزیر خارجہ نے گزشتہ کچھ مہینوں میں یورپ کے اہم ترین ممالک کے دورے کیے اور پاکستان کے اسٹیٹس کے حوالے سے پاکستانی موقف کی حمایت کے لیے بہتر طور پر سفارت کاری بھی کی گئی۔
اس کے بعد پاکستانی حکام کا کہنا تھا،''ہم نے ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں تمام تکنیکی تقاضوں پر مکمل عمل درآمد کیا ہے اور امید کرتے ہیں کہ اس مرتبہ فیصلہ پاکستان کے حق میں آئے گا۔‘‘
گرے لسٹ سے نکلنے سے پاکستان کو کیا فائدہ اور نہ نکلنے سے کیا نقصان ہو گا؟
ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کا نام بار بار گرے لسٹ میں شامل کرنے سے معیشت کو سرمایہ کاری، برآمدات، کاروبار اور حکومتی اخراجات میں کمی کی مد میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں کے باعث پاکستان کی معیشت کو 80 ارب ڈالر سے زیادہ کا ممکنہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
پاکستان دنیا کے مالیاتی نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ 100 سے 120 ارب ڈالر کی درآمدات اور برآمدات کا حامل ملک ہے۔ پاکستان کے بینکنگ کے شعبے اور بین الاقوامی لین دین میں باقی دنیا کے ساتھ پاکستان کے مالی اور تجارتی روابط ہیں۔ پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے سے ملکی معیشت میں بہتری آئے گی۔
گرے لسٹ میں رہنے والے ممالک کے ساتھ لین دین سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور سرمایہ کار ہچکچاتے ہیں۔ اگر پاکستان گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ لسٹ میں آتا ہے تو پاکستان میں سرمایہ کاری کی کافی حوصلہ افزائی ہو گی اور ایک مثبت پیغام پاکستان کے بارے میں دنیا بھر میں جائے گا۔
پاکستان گرے لسٹ میں کیسے اور کب آیا؟
منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد روکنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جو چالیس سفارشات مرتب کی گئی ہیں، ان کے نفاذ کو انٹرنیشنل کارپوریشن ریویو گروپ نامی ایک ذیلی تنظیم دیکھتی ہے۔ نومبر 2017ء میں انٹرنیشنل کارپوریشن ریویو گروپ کا اجلاس ارجنٹائن میں ہوا، جس میں پاکستان سے متعلق ایک قرارداد پاس کی گئی۔ اس اجلاس میں پاکستان کی جانب سے لشکر طیبہ، جیش محمد اور جماعت الدعوۃ جیسی تنظیموں کو دی جانے والی مبینہ حمایت کی طرف توجہ دلائی گئی۔ اس کے بعد امریکا اور برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی، جس کے بعد فرانس اور جرمنی نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔ اس طرح فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو جون 2018ء میں گرے لسٹ میں شامل کیا تھا۔
گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کیا ہیں؟
ایف اے ٹی ایف خود کسی ملک پر پابندیاں عائد نہیں کرتا تاہم اس فورس کے رکن ممالک خلاف ورزی کرنے والے ملکوں پر اقتصادی پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔ اس فورس کی طرف سے مختلف ممالک کی نگرانی کے لیے لسٹوں کا استعمال کیا جاتا ہے، جنہیں گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔ بلیک لسٹ میں ان ہائی رسک ممالک کو شامل کیا جاتا ہے، جہاں متعلقہ قوانین اور ضوابط میں سقم موجود ہوں۔ ان ممالک کے حوالے سے قوی امکان یہ ہوتا ہے کہ ٹاسک فورس کے رکن ممالک ان پر پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔ گرے لسٹ میں ان ممالک کو رکھا جاتا ہے، جن کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں اور وہ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مل کر ان قانونی خامیوں کو دور کرنے کا اعادہ کریں۔ شمالی کوریا اور ایران اس وقت اس فورس کی بلیک لسٹ میں شامل ہیں، جن پر اقتصادی پابندیاں عائد ہیں۔ گرے لسٹ میں ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کو بین الاقوامی قرضوں تک محدود رسائی حاصل ہو گی۔
ایف اے ٹی ایف ہے کیا؟
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک عالمی ادارہ ہے، جس کا قیام 1989ء میں جی ایٹ سمٹ کے دوران ترقی یافتہ ممالک کے ایما پر پیرس میں عمل میں آیا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کی روک تھام تھا۔ تاہم 2011ء میں اس کا دائرہ کار وسیع کر دیا گیا۔ اس کے اختیارات میں بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھنے اور اس حوالے سے مناسب قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات کرنا بھی شامل ہے۔
اس ادارے کے کُل 38 ارکان میں امریکا، برطانیہ، چین اور بھارت بھی شامل ہیں جبکہ پاکستان اس کا رکن نہیں۔ ادارے کا اجلاس ہر چار ماہ بعد، یعنی سال میں تین بار ہوتا ہے، جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی جاری کردہ سفارشات پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے۔
امریکا میں 11 ستمبر2001ء کے حملوں کے بعد یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ دہشت گردی کی فنڈنگ کی روک تھام کے لیے بھی مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے، جس کے بعد اکتوبر2001ء میں ایف اے ٹی ایف کے مقاصد میں منی لانڈرنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی مالی معاونت کو بھی شامل کر لیا گیا۔ اپریل 2012ء میں بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فنانسنگ پر نظر رکھنے اور اس کی روک تھام کے اقدامات پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری بھی اسی ٹاسک فورس کے سپرد کر دی گئی۔