ایف اے ٹی ایف کا فیصلہ: ماہرین اور حکومت کو مایوسی
25 فروری 2021ایف اے ٹی ایف کے فیصلے کا اعلان اس ادارے کے صدر ڈاکٹر مارکس پلیئر نے ایک پریس بریفنگ میں کیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ گو کہ پاکستان نے بہت پیش رفت کی ہے لیکن دہشت گردی میں مالی اعانت کے حوالے سے تین اہم اقدامات میں خامیاں ہیں۔
پاکستانی حکام اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد نے ان چھ مطالبات پر خاطر خواہ کام کیا ہے، جس کی مانگ گزشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے بعد کی گئی تھی۔
پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا جائے: جنرل بپن راوت
چھ مطالبات
ایف اے ٹی ایف نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ "پاکستان اپنی اسٹریٹجک خامیوں کو دور کرنے کے لئے اپنے عملی منصوبے پر عمل درآمد جاری رکھے اور یہ عمل درآمد ملکی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر ہونا چاہیے.
اسلام آباد اس بات کو ثابت کرے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے (ایل ای اے) دہشت گردی کی مالی اعانت کی وسیع پیمانے پر نشاندہی کر رہے ہیں اور تفتیش کر رہے ہیں۔
پاکستان کی بھرپور حمایت جاری رکھیں گے، ترک صدر
مؤثر اقدامات
پاکستانی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ تمام 1267 اور 1373 نامزد دہشت گردوں اور ان کی طرف سے یا ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد کے خلاف مالی پابندیوں کے موثر نفاذ کے لئے اسلام آباد اقدامات اٹھائے۔ پاکستانی حکومت غیر منافع بخش تنظیموں کے سلسلے میں رقوم کے جمع کرنے کے عمل کو روکے اوراس کی نقل و حرکت کو بھی روکے۔
پاکستانی حکومت اثاثوں کی نشاندہی کرے اور انہیں منجمد کرے جب کہ نامزد افراد اور تنظیموں کی طرف سے فنڈز اور مالی خدمات تک رسائی پر پابندی لگائے۔ وفاقی حکام دہشت گردی کی مالی اعانت کی پابندیوں کی خلاف ورزی کے خلاف اقدامات کا اٹھانے کو یقینی بنائیں۔
فیصلہ سیاسی ہے
وزیر اعظم کی معاشی مشاورتی کونسل کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ایف اے ٹی ایف ایک سیاسی ادارہ ہے، جسے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ کہ اس ادارے کا مالی امور سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم نے بہت سارے اقدامات کئے لیکن ہمیں اس لیے گرے لسٹ میں رکھا گیا تا کہ ہم آئی ایم ایف کے پروگرام سے نہ نکل جائیں، اگر گرے لسٹ سے نکلتے ہیں، تو پاکستان کبھی بھی آئی ایم ایف کے پروگرام میں نہیں جاتا۔‘‘
منی لانڈرنگ: الطاف خانانی سے متعلق پاک بھارت تکرار کیوں؟
گرے لسٹ کی رکھنے کی وجہ نہیں
ایف اے ٹی ایف کے اجلاسوں پر گہری نظر رکھنے والے معیشت دان اور سابق وفاقی وزیر خزانہ اور پنجاب حکومت کے مشیر خزانہ سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی سیاسی معاملہ نہیں ہوتا تو پاکستان کو گرے لسٹ میں نہ رکھا جاتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' پاکستان نے تمام بینکوں اور متعلقہ اداروں میں مشکوک ٹرانزیکشن کو مانیٹر کرنے کے لئے یونٹس بنائے ہیں۔ نامزد دہشت گردوں کے خلاف کاررائیوں بھی کی گئی ہیں۔ ان تمام اقدامات کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔‘‘
عمل درآمد کا مسئلہ
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان نے چھ مطالبات کے حوالے سے قانون سازی تو کی لیکن ان پرعملدرآمد کا مسئلہ بہرحال مشکل ہے۔ معروف معیشت دان ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا و سابق وزیر خزانہ پنجاب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بات صحیح ہے۔''ان تمام مطالبات کے بارے میں قانون سازی ہوچکی ہے لیکن میری سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ ان پر عملددرآمد کیسے ہوگا، جس کی لئے آپ کو افرادی قوت، اپنی گنجائش اور وسائل کو بڑھانا ہوگا، جو اس وقت نہیں ہیں۔‘‘
ناکافی اقدامات
لاہورسے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کہ کہنا ہے کہ پاکستان نے ابھی تک ایف اے ٹی ایف میں نامزد عسکریت پسندوں اور ان کی تنظیموں کے ذریعہ فنڈ اکٹھا کرنے سے روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے۔ کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ان چھ اقدامات پر اتنی سنجیدگی سے کام نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھا گیا ہے۔