1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک سال بعد تھائی لینڈ پر فوج کی گرفت اور مضبوط

Rodion Ebbighausen / امجد علی22 مئی 2015

بائیس مئی 2014ء کو تھائی لینڈ میں فوج نے کاروبارِ حکومت سنبھال لیا تھا۔ اس ایک سال میں اس ملک پر فوج کی گرفت اور بھی مضبوط ہو گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار روڈیون ایبک ہاؤزن کے مطابق اب مزاحمت کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FUOV
Thailand Vereidigung des neuen Generalstabschefs Udomdej Sitabutr
تصویر: Reuters/Athit Perawongmetha

روڈیون ایبک ہاؤزن لکھتے ہیں: ’’ایک بات پہلے کی طرح اب بھی الجھن میں ڈال دینے والی ہے اور وہ یہ کہ تھائی لینڈ کے زیادہ تر شہریوں نے 2014ء کی فوجی بغاوت اور فوج کی جانب سے کی جانے والی سخت کارروائی کا خیر مقدم کیا تھا۔ ان شہریوں کی طرف سے دی جانے والی دلیل یہ تھی کہ حکومت کا تختہ الٹے جانے سے پہلے ہونے والے احتجاجی مظاہرے معاشرے میں پائی جانے والی ہم آہنگی اور ملکی وحدت کے لیے خطرہ بن رہے تھے اور یہ کہ اُس دور کے آئین کے دائرے میں تنازعے کے فریقین کے درمیان کوئی اتفاقِ رائے نہ ہو سکا۔ ایسے میں بالآخر فوج نے مداخلت کی تاکہ تھائی لینڈ کو افراتفری اور انارکی سے بچایا جا سکے۔

تاہم اس امن و سلامتی کی بھاری قیمت شہری حقوق کی صورت میں وصول کی گئی، جسے ادا کرنے کے لیے بہت سے تھائی شہری خوشی خوشی تیار ہیں۔ آج بھی اس ملک میں سیاسی جلسے جلوس منع ہیں اور پریس کی آزادی اور اظہارِ رائے کی آزادی بڑی حد تک محدود بنائی جا چکی ہیں۔ ایک نمائشی قسم کے مقدمے میں سابق خاتون وزیر اعظم کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے اور بہت سے ماہرین کے خیال میں یہ بات پہلے سے طے ہے کہ عدالتی فیصلہ کیا ہو گا۔

اب فوج کی جانب سے مقرر کردہ قومی کونسل برائے امن و سلامتی (NCPO) کو ایک نیا آئین تشکیل دینا ہے۔ تاہم اس کونسل کے قوانین فوجی بغاوت تک حاصل کی جانے والی اس ملک کی جمہوری کامیابیوں کی نفی کرتے ہیں۔ گو تب تک رائج نظام کامل نہیں تھا تاہم وہ پوری قوم کو سیاسی عمل میں شرکت کا موقع فراہم کر رہا تھا۔ تھائی لینڈ، جو کبھی جنوب مشرقی ایشیا میں جمہوریت کے حوالے سے پیش پیش تھا، اب ایسا نہیں رہا۔

Ebbighausen Rodion Kommentarbild App
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار روڈیون ایبک ہاؤزنتصویر: DW

شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کو لڑ کر حاصل کرنا اُنہیں ختم کر دینے سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔ عرب دُنیا میں ’عرب اسپرنگ‘ کے نام سے ابھرنے والی تحریک کی ناکامی واضح کرتی ہے کہ کسی آمریت سے جان چھڑانا کتنا بڑا چیلنج ہے۔ یہی حال تھائی لینڈ کے ہمسایہ ملک میانمار کا ہے، جہاں اپوزیشن اور فوج کے درمیان کشمکش کو ساٹھ سال ہو چکے ہیں اور جس کا حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

جب ایک آمریت خود کو ایک بار مستحکم کر لیتی ہے تو اُس کا ایک ہی ہدف ہوتا ہے کہ حکمران طبقے کے اقتدار کو ہر ممکن طریقے سے برقرار رکھا جائے۔ تھائی لینڈ بھی اس اصول سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اگرچہ فوج بار بار یہ منتر پڑھے جا رہی ہے کہ وہ خود کو ایک عبوری حکومت تصور کر رہی ہے اور جیسے ہی سیاسی حالات ٹھیک ہو جائیں گے، وہ اقتدار قوم کے نمائندوں کو واپس کر دے گی تاہم یہ بات مشکوک لگ رہی ہے۔ فوجی بغاوت کے فوراً بعد اعلان کیا گیا تھا کہ عام انتخابات 2015ء کے اواخر میں ہوں گے۔ اب اُنیس مئی کو نیا اعلان یہ سامنے آیا کہ بہت جلد بھی ہوا تو پہلے اگست 2016ء میں نئے آئین پر ایک ریفرنڈم ہو گا، جس کے بعد کہیں انتخابات کی باری آئے گی۔

اب تک حالت یہ ہے کہ فوجی حکومت کے خلاف مزاحمت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اِکا دُکا صحافی اور دانشور ہی اس بارے میں اظہارِ خیال کرتے نظر آتے ہیں۔ معزول وز یر اعظم یِنگ لَک شیناوترا کے حامی ابھی کھلے عام احتجاج کرنے سے احتراز کر رہے ہیں۔ اصل مزاحمت اُس وقت شروع ہو گی، جب وہ لوگ، جنہوں نے اس بغاوت کو خوش آمدید کہا تھا، یہ جان جائیں گے کہ فوج نے سماجی تنازعات کو حل نہیں کیا ہے بلکہ اُنہیں محض وقتی طور پر دبا دیا ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں