ای کولی بیکٹیریا: ہلاک شدگان کی تعداد ستائیس
9 جون 2011ساتھ ہی ان وزراء نے ملک میں صحت کے شعبے میں مستقبل میں پیدا ہونے والے کسی بھی نئے بحران کا بہتر مقابلہ کر سکنے کے لیے موجودہ نظام میں چند ممکنہ ترامیم کا اشارہ بھی دیا ہے۔ جرمن حکومت پر اس وجہ سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ کئی یورپی ملکوں کی طرف سے بھی تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ اب تک ای کولی بیکٹیریا کی اس وباء کی اصل وجوہات کا تعین کرنے میں ناکام رہی ہے، جو اب تک کم از کم 12 یورپی ملکوں میں 2700 سے زائد افراد کو متاثر کر چکی ہے۔ اس بیکٹیریا کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی اب مزید اضافے کے ساتھ 27 ہو چکی ہے۔
اس وباء کے حوالے سے اہم بات یہ ہے ای کولی بیکٹیریا کی جینیاتی تبدیلیوں کے عمل سے گزرنے کے بعد سامنے آنے والی قسم EHEC یا STEC سے بیمار ہونے والے سبھی انسانوں کا کسی نہ کسی طرح تعلق شمالی جرمنی میں ہیبمرگ کے نواح میں ایک جگہ سے بنتا ہے۔ لیکن اس پیش رفت کے باوجود یہ حقیقت تاحال سامنے نہیں آ سکی کہ ای کولی بیکٹیریا کا وبائی پھیلاؤ کس طرح شروع ہوا اور یہ مہلک جرثومہ شمالی جرمنی تک کیسے پہنچا۔
ای کولی کے باعث پھیلنے والی اس وباء سے متاثرہ جملہ مریضوں میں سے قریب ایک چوتھائی اب تک ایسی طبی پیچیدگیوں کا شکار ہو چکے ہیں، جو ’ہیمو لیٹک یوریمِک سنڈروم‘ یا HUS کہلاتی ہیں۔ جرمنی کے سولہ وفاقی صوبوں کے وزرائے صحت کے ایک اجلاس کے بعد وفاقی وزیر صحت ڈینیئل باہر نے کہا کہ یہ بیکٹیریائی وباء اتنی شدید ہے کہ حکومت کو اس بارے میں اپنے فوری رد عمل میں عوام کو بہت سی ہدایات کرنے کے علاوہ کئی سفارشات بھی کرنا پڑیں لیکن یہ بات ابھی تک نہیں کہی جا سکتی کہ تمام خطرات ٹل گئے ہیں۔
ای کولی بیکٹیریا کے باعث پھیلنے والی تازہ ترین وباء کے پس منظر میں وفاقی جرمن وزیر صحت نے کہا کہ جرمنی میں صحت عامہ اور فوڈ سیفٹی کے شعبوں میں وفاقی اور صوبائی حکام اس لیے ایک فوری تجزیاتی عمل شروع کر دیں گے کہ آئندہ اگر ایسی کوئی وباء دوبارہ پھیلے تو کس طرح کا مربوط اور اجتماعی رد عمل زیادہ مناسب اور نتیجہ خیز ہو گا۔
Daniel Bahr کے مطابق یہ درست ہے کہ جرمنی میں آئندہ پبلک ہیلتھ اسٹرکچر میں تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں تاہم ایسا فوری طور پر نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ مہلک ثابت ہونے والے ای کولی بیکٹیریا نے جو بحرانی حالات پیدا کر دیے ہیں، ان میں سے ہنگامی نوعیت کے معاملات پر بلا تاخیر توجہ دینا ہو گی، جس کے بعد پہلے مختصر مدتی اور پھر طویل المدتی ترجیحات کو عملی شکل دینا ضروری ہو گا۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف بلوچ