بابری مسجد کا انہدام ایک سازش تھی: بھارتی وزیر داخلہ چدم برم
9 دسمبر 2009وزیر داخلہ اور حمکران کانگریس پارٹی کے سینیئر لیڈرچدم برم نے کہا کہ بابری مسجد کے گرائے جانے کے حوالے سے لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے لیڈران اپنی ذمہ داریوں سے ہرگز بھاگ نہیں سکتے ہیں۔
ہندو شدت پسندوں نے چھ دسمبر سن 1992ء کوبھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع ایودھیا میں واقع بابری مسجد کو گرایا تھا۔ مرکزی حکومت نے اس انہدام کی تحقیقات کا کام جسٹس من موہن لبرہان کو سونپا، جنہوں نے تقریباً سترہ سال بعد اپنی رپورٹ ابھی حال ہی میں وفاقی وزارت داخلہ کے حوالے کر دی۔
ایک رکنی لبرہان کمیشن کی اسی رپورٹ پر بھارتی پارلیمان کے ایوان زیرین یعنی لوک سبھا میں منگل آٹھ دسمبر کو زبردست بحث ہوئی۔ گرما گرم بحث کا جواب دیتے ہوئے بھارتی وزیر داخلہ پی چدم برم نے کہا کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں بھاجپا اور سنگھ پریوار کے حامیوں نے بھرپور تیاریاں کر رکھی تھیں، جن کا ’’واحد مقصد بابری مسجد کو گرانا تھا۔‘‘
پی چدم برم نے کہا کہ انہدام کے وقت ریاست اترپردیش کی حکومت نے وفاقی حکومت، عدالت عظمیٰ اور ’نیشنل انٹیگریشن کونسل‘ سے’’جھوٹ‘‘ بولا تھا کہ وہ بابری مسجد کو گرنے سے بچانے میں کامیاب ہوجائے گی۔
پی چدم برم جب لوک سبھا میں ان خیالات کا اظہار کر رہے تھے تو قومی جموریہ اتحاد NDA کے رہنما اور ریاست اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ زبردست نعرے بازی کر رہے تھے۔ تاریخی بابری مسجد کے انہدام کے وقت کلیان سنگھ ہی اترپردیش کے وزیر اعلیٰ تھے۔
بھارتی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ سخت گیر موقف کی حامل ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کو مسجد کے انہدام پر ’’شرم بھی نہیں آتی ہے۔‘‘ دوسری جانب بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماوٴں نے جسٹس لبرہان کمیشن کی رپورٹ کو ’’یکطرفہ اور جانبدار‘‘ قرار دیا ہے۔ ہندو شدت پسند تنظیمیں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی رام مندر تعمیر کرنے کی پالیسی پر کئی برسوں سے سیاست کر رہی ہے۔
سن 1992ء کے اس واقعے کے بعد پھوٹ پڑنے والے فسادات میں قریب تین ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت ہر سال چھ دسمبر کو ’’یوم سیاہ‘‘ جبکہ شدت پسند ہندو ’’یوم فتح‘‘ کے طور پر مناتے ہیں۔
رپورٹ: خبر رساں ادارے/گوہر نذیر گیلانی
ادارت: شادی خان سیف