بارہ ہزار سال پرانا ترک ثقافتی ورثہ ڈیم کے پانی کی نذر
27 فروری 2020ترکی میں دریائے فرات کے کنارے الیسو ڈیم کی تعمیر جہاں ایک طرف علاقے کے باشندوں کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت دے رہی ہے وہاں دوسری جانب اس شہر کی بارہ ہزار سال پرانی تاریخ کے مٹنے کا خدشہ بھی ثقافتی ورثے سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے گہرے صدمے کا باعث بن رہا ہے۔
دیوہیکل سائز کے الیسو ڈیم سے گرنے والے پانی کی سطح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پانی کے اس تیز بہاؤ کے سبب آہستہ آہستہ شہر 'حسن کیف‘ ڈوب رہا ہے اورایک ایسے علاقے میں سیلاب آ رہا ہے جسے ہزاروں سال تک انسانوں نے آباد کیا تھا۔
جنوب مشرقی ترکی میں دریائے فرات کے کنارے اس ڈیم کی تعمیر کے منصوبے کو ترک حکومت نے 1997ء میں منظور کیا تھا۔ اس کا مقصد اس خطے کے لیے بجلی پیدا کرنا ہے۔ تاہم اس سے، تقریباً 80 ہزار افراد کے ٹھکانے جڑ سے اکھاڑ پھینکے جائیں گے جو ارد گرد کے قریب دو سو دیہات میں آباد ہیں۔ الیسو ڈیم کی تعمیر کے منصوبے نے پڑوسی ملک عراق کے حکام کو بھی خوف زدہ کر دیا ہے۔ جنہیں اپنے پانی کی فراہمی پر اس منصوبے کے منفی اثرات سے شدید خدشات لاحق ہیں۔
حسن کیف کی مختصر تاریخ
دنیا کے چند مقامات ایسے ہیں جو انسانی تاریخ کے تمام ادوار سے ایسے جُڑے رہیں گے کہ ان کی ظاہری شکل یا خد و خال مٹ بھی جائے تب بھی یہ ناقابل فراموش یادوں کے سہارے زندہ کہانیوں کی شکل میں ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک جنوب مشرقی ترکی میں دریائے فرات پر واقعے شہر حسن کیف ہے جو نہ صوف ترکی اور آس پاس کے ممالک بلکہ عالمی تاریخ کا ورثہ مانا جاتا ہے۔ اس کی تاریخ بارہ ہزار سال پُرانی ہے جس کا مطلب ہوا کہ اس علاقے نے دنیا کی چند قدیم ترین تہذیبوں کے رنگ اپنے اندر سمیٹے اور یہ کئی سلطنتوں کے مدو جزر سے آشنا ہے۔ تنہا اس کے نام کو متعدد قدیمی زبانوں میں مختلف انداز میں لکھا اور جانا گیا۔ آرامی یا سامی زبان کے علاوہ عربی، ترکی، فارسی، کرد، یونانی اور لاطینی زبان میں اسے مختلف طرح سے لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ اس علاقے کی ثقافت پر ان تمام ثقافتوں کو گہرے اثرات پائے جاتے ہیں۔
حسن کیف کے نوادرات
۔ سن 1116 میں دریائے فرات پر تعمیر ہونے والا قدیم پُل جسے سلطنت ارتوق کے سلطان فخرالدین کارا ارسلان نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ اب ایک کھنڈر بن چُکا ہے۔ اس کے کُچھ حصے چوبی یعنی لکڑی کے تھے۔
۔ ارتوق سلطان کا محل
۔ عیوبید مسجد
۔ چھوٹا عیوبید محل
۔ کھڑی چٹان پر بنی سکونت
۔ زین ال بے کا مقبرہ۔ جو 15ویں صدی کے حکمران اووزون حسن کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔
الیسو ڈیم کی تعمیر کے اثرات
برسوں کی ناکامیوں کے بعد گزشتہ جولائی میں یہ ڈیم بھرنا شروع ہوا۔ تب حسن کیف اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں پانی کی سطح پہلے ہی قریب پندرہ میٹر بلند ہو چُکی تھی۔
یہ ڈیم ترکی کے جنوب مشرقی علاقے اناطولیہ کے غریب ترین اور معاشی طور پر پسماندہ اور کم ترقی یافتہ علاقے کی ترقی اور فروغ کے منصوبے کے لیے ڈیزائن کیے گئے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔
بیشتر رہائشیوں نے حسن کیف کو چھوڑ کر نزدیک ہی قائم پہاڑی شہر یینی حسن کیف میں سکونت اختیار کر لی۔ ایک بار ڈیم مکمل طور پر تعمیر ہو جانے کے بعد ایک نئی جھیل کے کنارے یہ شہر آباد ہوگا۔ فی الحال وہ اس مقام سے ایک قدیم پل کے پتھر کے ستون دیکھ سکتے ہیں جو کبھی دجلہ، اور اس کی ٹھوس محرابوں کو ایک دوسرے سے جدا کیے ہوئے تھا یہ دونوں ہی آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں۔
جدید پل کے دونوں سرے پر گندگی کا ڈھیر لگا ہے ، جو حسن کیف قصبے میں داخلے کا راستہ ہے۔ یہ مقامی باشندوں کو حسن کیف میں داخل ہونے سے روکنے کا کام بھی انجام دے رہا ہے۔ گاؤں کے محافظ اس کے آخری سرے پر تعینات رہتے ہیں۔
تاریخ اہم یا مستقبل
الیسو ڈیم بارہ سو میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا۔ توانائی کی پیداوار کے لحاظ سے یہ ترکی کا چوتھا سب سے بڑا ڈیم ہوگا۔ اُس تاریخی حسن کیف قلعے کے نیچے ، جہاں رومی ، منگول سیلجوک ترک سب ہی کی سلطنتوں کا سورج طلوع و غروب ہوا۔ یہاں سے علاقائی باشندے یا تو لڑائی میں جیت کر ان علاقوں پر اپنا راج قائم کرتے ہوئے یا شکستخوردگی کے بعد کہیں اور جا بسے۔ یہ وہ آبی درہ یا گہری وادی ہے جہاں کبھی سینکڑوں غاروں میں انسان بسے ہوئے تھے۔ اب ان غاروں کو پچاس میٹر اندر تک کنکریٹ سے بھر دیا گیا ہے۔
ک م/ ع آ