بالآخر سعودی عورتوں کے لیے ووٹ کا حق
26 ستمبر 2011سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ نے اتوار کے روز اپنی تقریر میں کہا کہ سعودی خواتین آئندہ دور کی مشاورتی شوریٰ کونسل کے انتخابات میں حصہ لے سکیں گی۔ مشاورتی شوریٰ قانون سازی کا کام کرتی ہے تاہم سعودی عرب میں بادشاہ کے پاس ہی اصل طاقت ہے۔ یہ انتخابات بھی عوامی رائے دہی کی بنیاد پر نہیں کیے جاتے ہیں بلکہ شوریٰ کے نمائندے غیر منتخب ہوتے ہیں۔ شاہ عبداللہ کے اعلان کی رو سے سعودی خواتین میونسپل الیکشن میں ووٹ بھی ڈال سکیں گی۔ ان کے مطابق یہ سب ’اسلام کے اصولوں‘ کے مطابق ہوگا۔
شاہ عبداللہ نے اپنی تقریر میں کہا، ’’کیونکہ ہم شریعت کے اصولوں کے مطابق معاشرے میں خواتین کے کردار کو ضروری سمجھتے ہیں، ہم نے سینیئر علماء کے ساتھ مشاورت کی کہ شوریٰ کے اگلے انتخابات میں خواتین کو حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔ خواتین میونسپل انتخابات میں حصہ بھی لے سکیں گی اور ووٹ بھی ڈال سکیں گی۔‘‘
تاہم بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت کا اس فیصلے کو مشرق وسطیٰ میں جمہوریت اور مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف عوامی بغاوتوں کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ مصر، یمن، لیبیا، بحرین، شام اور مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے دیگر ممالک میں عوامی بغاوتوں نے یا تو آمرانہ حکومتوں کے تختے الٹ دیے ہیں یا پھر ان کا اقتدار ہچکولے کھا رہا ہے۔ خود سعودی عرب میں بھی معمولی شدت کی شورش دیکھی گئی ہے جس کو حکمرانوں نے سختی سے کچلنے کی کوشش کی ہے۔ مبصرین کے مطابق خواتین کو ووٹ کا حق دینا سعودی حکومت کی جانب سے ’اصلاحات‘ کے عمل کو شروع کرنے کا تاثر دینا معلوم ہوتا ہے۔
سعودی عرب کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے سعودی فرماں روا کے اعلان کا خیر مقدم کا ہے اور کہا ہے کہ حکومت کو خواتین پر عائد دوسری پابندیاں بھی اٹھا لینی چاہئیں۔ خیال رہے کہ سعودی عرب میں خواتین پر ڈرائیونگ کی بھی پابندی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بعض خواتین نے سلطنت میں ڈرائیونگ کر کے اس پابندی کے خلاف اپنا احتجاج رقم کر وایا ہے۔
برطانیہ اور چند دیگر مغربی ممالک نے سعودی حکومت کے حالیہ فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور زور دیا ہے کہ سعودی حکومت انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے مزید اقدامات کرے۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: ندیم گِل