1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

260711 60 Jahre UN Flüchtlingskonvention

27 جولائی 2011

دنیا بھر میں خانہ جنگیوں، بد امنی اور تشدد سے تنگ آ کر 43 ملین انسان گھر بار چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں ہیں۔ ان بے گھر انسانوں میں سے زیادہ تر اپنے اپنے ملک کے اندر ہی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/124m8
سوات کے پناہ کے متلاشی
سوات کے پناہ کے متلاشیتصویر: AP

اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین UNHCR کی رپورٹ برائے 2010ء کے مطابق پناہ گزینوں کی یہ تعداد گزشتہ پندرہ برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ وسط جون میں اطالوی دارالحکومت میں یہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے اس ادارے کے سربراہ انتونیو گتیریس نے کہا تھا:’’نئے بحرانی خطّوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ سالِ رواں کے آغاز سے آئیوری کوسٹ، لیبیا، شام اور یمن بھی ان میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پرانے بحران بھی بدستور موجود ہیں مثلاً افغانستان، صومالیہ یا پھر کانگو میں بیس سال سے بھی زیادہ عرصے سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔‘‘

اس رپورٹ کے اجراء کے لیے روم کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا کیونکہ شمالی افریقہ سے آئے ہوئے مہاجرین کی سب سے زیادہ باز گشت اسی شہر میں سنائی دیتی رہی ہے۔ جہاں اطالوی سیاستدان ان پناہ گزینوں کا ذکر کرتے ہوئے ’مہاجرین کی لہر‘ یا ’مہاجرین کے سُونامی‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، وہاں حقیقت یہ ہے کہ لیبیا سے اٹلی اور یوں یورپی یونین کی سرزمین پر پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد محض 18 ہزار تھی۔

دارفور میں مہاجرین کا ایک کیمپ
دارفور میں مہاجرین کا ایک کیمپتصویر: picture-alliance/ dpa

ان انسانوں کو اپنے ہاں قبول کرنے پر پائے جانے والے تنازعے کو وفاقی جرمن صدر کرسٹیان وولف نے شرم ناک قرار دیتے ہوئے یورپ بھر میں پناہ دینے کے یکساں ضوابط کا مطالبہ کیا تھا:’’ایک ایسے یورپ کے لیے، جو امن، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت پر یقین رکھتا ہو، اُن انسانوں کے ساتھ یک جہتی ظاہر کرنا ایک مسلمہ بات ہونی چاہیے، جنہیں حفاظت کی ضرورت ہے۔‘‘

لیبیا کے ایک ملین سے زیادہ مہاجرین کو یورپ میں نہیں بلکہ مصر اور تیونس میں پناہ ملی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین گتیریس کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ ہر پانچ میں سے چار مہاجرین تیسری دُنیا میں رہ رہے ہیں۔

ملک کے اندر ہی در بدر ہو جانے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے اور پھر سے اپنے آبائی گھروں میں ایک نئی زندگی کا آغاز کرنے والے 2.9 ملین انسانوں میں پاکستان اور کانگو کے مہاجرین بھی شامل ہیں
ملک کے اندر ہی در بدر ہو جانے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے اور پھر سے اپنے آبائی گھروں میں ایک نئی زندگی کا آغاز کرنے والے 2.9 ملین انسانوں میں پاکستان اور کانگو کے مہاجرین بھی شامل ہیںتصویر: AP

زیادہ تر مہاجرین اپنے ہمسایہ ملکوں کا رُخ کرتے ہیں، جیسے کہ اب کینیا نے اپنے دروازے صومالیہ اور ایتھوپیا کے بھوک کے شکار مہاجرین کے لیے کھول دیے ہیں۔ ملک کے اندر ہی در بدر ہو جانے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے اور پھر سے اپنے آبائی گھروں میں ایک نئی زندگی کا آغاز کرنے والے 2.9 ملین انسانوں میں پاکستان اور کانگو کے مہاجرین بھی شامل ہیں۔

انتونیو گتیریس کے مطابق پناہ گزینوں کی اِس ڈرامائی تعداد کے پیشِ نظر خاص طور پر امیر ملکوں کو اپنا طرزِ عمل بدلنا ہو گا۔ انہوں نے تارکینِ وطن کو روکنے کے لیے اور گیارہ ستمبر کے دہشت پسندانہ حملوں کے بعد سلامتی کے خدشات کی بناء پر اختیار کی جانے والی پالیسیوں کو تشویشناک قرار دیا ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں