برازیل: سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ملٹری پولیس تعینات
15 جنوری 2011ریوڈی جنیریو کے آفت زدہ پہاڑی علاقوں میں امدادی کارکنوں کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ عناصر بھی پہنچ گئے ہیں، جنہوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا ہے۔ حکام نے اس صورت حال پر قابو پانے کے لئے وہاں ملٹری پولیس تعینات کر دی ہے۔
دوسری جانب متاثرہ علاقوں سے مٹی تلے دبے افراد کو نکالنے کے لئے کارروائیاں تاحال جاری ہیں اور اب تک کم از کم 540 ہلاکتوں کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ سیلاب اور مٹی کے تودے پھسلنے سے آنے والی اس آفت کو گزشتہ چار دہائیوں کی سب سے بڑی تباہی قرار دیا جا رہا ہے۔ وہاں اس سے قبل 1967ء میں بھی مٹی کے تودے گرنے سے بڑی تباہی آئی تھی اور اس وقت ہلاکتوں کی تعداد 437 رہی تھی۔
دوسری جانب امدادی کارروائیوں کے تناظر میں برازیل کی صدر ڈِلما روسیف نے متاثرین کے لیے 40 کروڑ ڈالرکی امداد جاری کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
خیال رہے کہ سب سے زیادہ ہلاکتیں ریو ڈی جینیرو کی قریبی پہاڑیوں میں واقع آبادیوں میں ہوئیں۔ وہاں تباہی طوفانی بارشوں کے باعث مچی، جن کے نتیجے میں نشیبی آبادیوں پر مٹی کے تودے گرے جبکہ دریا بھی اُبل پڑے۔
ریو ڈی جنیرو کے شمالی علاقے سیرانا میں طوفانی بارشوں اور مٹی کے تودے پھسلنے سے آنے والی تباہی کا درست اندازہ بدھ کو ہوا تھا، جب کم از کم 237 ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی۔ شہری دفاع کے مقامی ادارے کے سربراہ رابرٹو روباڈے نے میڈیا کو بتایا کہ مرنے والوں میں امدادی کارکنان بھی شامل ہیں۔
مرنے والوں کی تعداد میں بدھ کو ڈرامائی اضافہ ہوا ہے جبکہ متاثرہ علاقوں میں ٹیلی فون سسٹم اور سڑکوں کی تباہی کی وجہ سے اصل تباہی کی تصدیق میں دیر لگی۔ ریاستی سیکریٹری برائے ماحولیات کارلوس مِنک کا کہنا ہے کہ تیرےسوپولس کی تاریخ کی یہ سب سے بڑی تباہی ہے۔ اس علاقے کی آبادی ایک لاکھ 80 ہزار ہے اور اسے تاریخی اہمیت کا حامل علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔
تیرےسوپولس کے میئر یورگے ماریو کا کہنا ہے کہ صرف اسی علاقے میں ایک ہزار افراد بے گھر ہو گئے ہیں جبکہ درجنوں پل اور سڑکیں تباہی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے پہلے ہی ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: عاطف توقیر