1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ میں آباد پاکستانیوں میں قبل از پیدائش بچے کے جنس کا انتخاب عام

Kishwar Mustafa26 نومبر 2012

تارکین وطن کے اکثر گھرانے مغربی معاشرے میں آکر بھی اپنے ملکوں کی اقدارپر قائم رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ بچے کی پیدائش سے پہلے بچے کی جنس معلوم کرنا تاکہ لڑکی ہونے کی صورت میں اس کا اسقاط کروا دیا جائے، وغیرہ عام مسائل ہیں۔

https://p.dw.com/p/16pjf
تصویر: picture-alliance/dpa

گھریلو تشدد کے نام پر خواتین کے ساتھ کی جانے والی زیادتوں کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ تقریباً ہر ملک ہی میں خواتین کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانے والی عورتوں کی انجمنیں قائم ہیں، جن میں زیادہ تر غیر سرکاری ہیں۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کا ادارہ برائے صنفی مساوات اور خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے قائم کردہ UN Women کی جرمن شاخ ’نیشنل کمیٹی ڈوئچ لنڈ‘ کے زیر اہتمام بون میں ڈی ڈبیلو کی میزبانی میں ایک سمپوزیم کا انعقاد ہوا۔

کم و بیش ہر دور اور ہر معاشرے میں خواتین کو استحصال کا شکار بنایا جاتا رہا ہے۔ تاہم اب اس موضوع پرکُھل کر بات ہونے لگی ہے۔ بون منعقدہ دو روزہ سمپوزیم میں افریقہ سے لے کر لاطینی امریکا اور مشرق وسطیٰ تا جنوبی ایشیا کے ممالک میں دنیا کے مختلف خطوں سے حقوق نسواں کے لیے سرگرم خواتین نے صورتحال پر بحث و مباحثہ کیا ۔ اس موقع پر ایک دلچسپ اور اہم موضوع تھا ’ لاپتہ عورتیں اور خواتین کے ساتھ ہونے والے گھریلو تشدد کی مختلف اقسام‘۔

بھارت سے تعلق رکھنے والی اس شعبے کی ایک معروف ماہر ڈاکٹر کارینے کمار نے ظلم و جبرکی شکار عورتوں کی گھٹی ہوئی آواز کو دنیا تک پہنچانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ وہ کہتی ہیں،’ خواتین کی موومنٹس دراصل کسی بھی معاشرے کی مرکزی سیاست کی عکاسی کرتی ہیں اور یہ ہر معاشرے میں ہوتا ہے‘۔

Demonstration gegen sexuelle Gewalt gegen Frauen Delhi Indien
بھارت میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے خلاف احتجاجتصویر: dapd

ڈاکٹر کمار نے دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپانی فوجیوں کے ہاتھوں جنسی استحصال کی شکار ہونے والی ایسی خواتین کی آواز سنی، جو عشروں سے دبی ہوئی تھی۔ انہوں نے اس آواز کو عالمی ادارے اقوام متحدہ تک پہنچانے کا اہم کام انجام دیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں،’دوسری عالمی جنگ میں فلپائن اور انڈونیشیا سے لےکر منچوریا، منگولیا اور تمام ایشیا سے جاپانی فوجیوں نے بڑی تعداد میں نوجوان لڑکیوں اور خواتین کواغوا کیا تھا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد ان ہزاروں خواتین کا کیا بنا کسی کو پتہ نہیں تھا۔ دنیا جنگی جرائم کی باتیں کرتی رہی۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر برسنے والے بموں کو یاد رکھا گیا تاہم جنسی زیادتیوں کی شکار ہونے والی اُن خواتین کا مستقبل کیا تھا، کسی کو اس کی پرواہ نہیں تھی۔ تین لاکھ خواتین کو اُن کمفرٹ اسٹیشنز میں رکھا گیا تھا جہاں جاپانی فوجی انہیں جنسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق جنگ کے بعد اکثر خواتین نے خود کُشی کر لی تھی‘۔

Indien Frauen Protest Slutwalk Delhi sexuelle Gewalt
بھارت اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں خواتین کو جنسی زیادتیوں کا شکار بنانے کا رواج پہلے کی طرح اب بھی پایا جاتا ہےتصویر: AP

ڈاکٹر کمار نے بتایا کہ بچ جانے والی خواتین میں سے جو بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئیں انہوں نے کبھی اپنے گھر یا ممالک کا رُخ نہیں کیا بلکہ مختلف علاقوں میں جا کر گمنام سی زندگی گزارنے لگیں کیونکہ ایشیائی معاشروں میں جنسی زیادتی کی شکار عورت کا کوئی مقام نہیں۔ ان خواتین کی خاموشی پانچ عشروں کے بعد اُس وقت ختم ہوئی جب 1990ء میں خواتین کی مختلف انجمنوں نے جگہ جگہ ’اِن کمفرٹ اسٹیشنز‘ کی متاثرہ خواتین کی کہانیاں منظر عام پر لانا شروع کیں۔ تب ڈاکٹرکورین کمارایشین وومن ہیومن رائٹس کونسل سے منسلک تھیں اور منیلا میں ایک اجلاس کے موقع پر فلپائن کی ایک خاتون نے اپنی جیسی لاکھوں عورتوں کی کہانی سنائی جنہیں بھلا دیا گیا ہے۔ اس پر ڈاکٹر کمار اور اُن کی ساتھیوں نے ان گمنام خواتین کی آواز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے تک پہنچائی اور جاپانی حکومت کی طرف سے ان خواتین کے لیے تلافی کا مطالبہ بھی کیا۔ ڈاکٹر کورین کمار کی سب سے بڑی کامیابی اُن 40 Women Courts کا قیام ہے جو دنیا کے مختلف معاشروں میں خواتین سے متعلق مسائل کے حل کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔

UN Women کی جرمن شاخ ’نیشنل کمیٹی ڈوئچ لنڈ‘ کے زیراہتمام اس سمپوزیم میں مغربی ممالک میں خواتین کی صورتحال پر بھی غور کیا گیا۔ بلقان اور قفقاذ کے علاقوں میں ہونے والی جنگوں سے متاثرہ خواتین کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ خاص طور سے بوسنیا کی جنگ میں متحرب گروپوں، مقامی اور بین الاقوامی فوجیوں اور دیگر عناصر کی جنسی زیادتیوں کی شکار عورتوں کی کسمپرسی پر بھی بات ہوئی۔

Protest gegen Abtreibung in Mexiko ARCHIVBILD
میکسیکو اور چند یورپی ممالک میں اسقاط حمل کے خلاف احتجاجی مظاہرے سامنے آتے رہتے ہیںتصویر: AP

اس سمپوزیم کا ایک اہم موضوع مغربی معاشروں میں آباد تارکین وطن خواتین کے ساتھ ہونے والا گھریلو تشدد بھی تھا۔UN Women کی سوئس شاخ ’نیشنل کمیٹی سوئٹزرلینڈ‘ کی ڈاکٹر ڈورس اشٹُمپ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ تارکین وطن کے اکثر گھرانوں کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ اس مغربی معاشرے میں آکر بھی اپنے ملکوں کی اقدار و ثقافت پر قائم رہتے ہیں۔ ان میں عورتوں کے ساتھ ان کا سلوک، پدر سری روایات، یہاں تک کہ بچے کی پیدائش سے پہلے بچے کی جنس معلوم کرنا تاکہ فیصلہ کیا جا سکے کہ بچے کو رکھنا ہے یا لڑکی ہونے کی صورت میں اس کا اسقاط کروا دیا جائے، وغیرہ عام مسائل ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’برطانیہ میں اس بارے میں اندازے لگائے گئے ہیں کہ پاکستان سے آکر وہاں بسنے والے تارکین وطن گھرانے اپنی اقدار پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔ ان گھرانوں میں بچے کی پیدائش سے پہلے اس کے جنس کا پتہ اس لیے لگایا جاتا ہے کہ ان کے ہاں لڑکوں کی پیدائش ابھی بھی لڑکی سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور بعض گھرانے لڑکیوں کی پیدائش نہیں چاہتے اور ماؤں کو اسقاط حمل کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے‘۔

سوئزرلینڈ سے تعلق رکھنے والی خواتین کے امور کی ماہر ڈاکٹرڈورس اشٹُمپ نے یورپی ممالک کی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ تارکین وطن گھرانوں کو مغربی اقدار اپنانے اور یہاں کے قوانین کا پابند بنانے کے لیے سخت تر قوانین بنائیں کیونکہ کسی حاملہ سے زبردستی اسقاط حمل کروانا بھی کسی جرم سے کم نہیں۔ مزید یہ کہ اس اکیسویں صدی میں لڑکے اور لڑکی کی پیدائش کو اتنی اہمیت دینا اور امتیازی سلوک کرنا محض جہالت اور فرسودہ اقدار کی نشانی ہے۔

Km/ai