برطانیہ میں کثیر الثقافتی سماجی پالیسی ’ناکام‘
23 فروری 2011وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ابھی حال ہی میں یہ اعتراف کیا تھا کہ یورپی یونین کے رکن اس ملک میں اب تک زیر عمل کثیر الثقافتی سماجی پالیسی ناکام ہو گئی ہے۔ انہوں نے جزوی طور پر اس کی ایک وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی مسلم انتہا پسندی بھی بتائی تھی۔
وہ کثیر الثقافتی حکمت عملی، جس پر اب تک برطانیہ میں عمل کیا جاتا رہا ہے، کسی ایک ثقافت یا سماجی اقدار کے مجموعے کو کسی دوسری ثقافت یا سماجی اقدار کے مجموعے پر ترجیح نہیں دیتی، بلکہ تمام ثقافتوں کو ترقی اور ترویج کے مساوی مواقع مہیا کرتی ہے۔
پھر بھی، وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی رائے میں، برطانیہ میں آج کے معاشرے میں مختلف ثقافتوں کے نمائندہ افراد ایک دوسرے کے متوازی لیکن ایک دوسرے سے قطعی مختلف زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔
قدامت پسندوں کی ٹوری پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈیوڈ کیمرون کے خیال میں برطانیہ میں اگر مسلم شدت پسندی کے خطرات کا کامیابی سے مقابلہ کرنا مقصود ہے، تو اس کے لیے ماضی کی ناکام حکومتی پالیسیوں کو ترک کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں کیمرون لندن میں انڈر گراؤنڈ ریلوے نظام پر برطانیہ ہی میں پیدا ہونے والے دہشت گردوں کے ان حملوں کا حوالہ دیتے ہیں، جن میں سن 2005 میں 52 افراد مارے گئے تھے۔
لیکن لندن حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ امریکہ، کینیڈا اور مغربی یورپی ملکوں میں کیے گئے ایک حالیہ سروے کے نتائج کے مطابق برطانیہ ترقی یافتہ دنیا کا وہ ملک ہے، جہاں مقامی اکثریتی آبادی کا تارکین وطن پر مشتمل سماجی اقلیت کے ساتھ رویہ مجموعی طور پر سب سے زیادہ جارحانہ ہے۔
برطانیہ میں تارکین وطن کے سماجی انضمام کی موجودہ صورت حال اور معاشرے میں ایسی نسلی اور ثقافتی اقلیتوں سے متعلق پائے جانے والے عمومی جذبات کے بارے میں خود ڈیوڈ کیمرون کی کنزرویٹو پارٹی کی چیئر پرسن سعیدہ وارثی کا موقف بھی بڑا اہم ہے۔
برطانوی کابینہ کی وزیر بے محکمہ اور پاکستانی نژاد بیرونیس سعیدہ وارثی کے بقول برطانیہ میں اعتدال پسند مسلمانوں اور ان کے ہم عقیدہ شدت پسندوں کے درمیان سماجی رویوں کی سطح پر لازماﹰ تفریق کی جانی چاہیے۔
بیرونیس سعیدہ وارثی، جو برطانوی کابینہ کی پہلی خاتون مسلمان وزیر ہیں، کہتی ہیں کہ برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف ’تعصب اور منفی ذہنی رویے‘ سماجی سطح پر اب رواج بن چکے ہیں، جو ہر حال میں بدلنے چاہیئں۔ ٹوری پارٹی کی چیئر پرسن کے مطابق آج برطانیہ میں اگر کوئی مسلمان خاتون برقعہ پہنے کہیں سے گزر رہی ہو، تو دیکھنے والے یہ سوچتے ہیں کہ یا تو وہ خاندانی سطح پر جبر اور استحصال کا شکار ہے یا پھر وہ اپنے برقعہ اور حجاب کے ساتھ اپنے ارد گرد موجود دوسرے انسانوں کو کوئی سیاسی پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے۔
سعیدہ وارثی کی طرح برطانیہ میں بہت سی سیاسی اور سماجی شخصیات ایسی ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ اس یورپی ملک میں مسلمانوں کے بارے میں پائے جانے والے عمومی منفی احساسات کا بلا تاخیر اور حتمی تدارک کیا جانا چاہیے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عدنان اسحاق