بشار الاسد کے دعوے، اقوام متحدہ کا سخت رد عمل
10 دسمبر 2011اقوام متحدہ کی جانب سے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے کی سربراہ ناوی پلے نے بشار الاسد کے حالیہ انٹرویو پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔
ناوی پلے نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل شام میں کریک ڈاؤن کے معاملے میں چابک دستی کا مظاہرہ کرتی، تو وہاں انسانی جانوں کے زیاں کو روکا جا سکتا تھا۔
دونوں رہنماؤں نے زور دے کر کہا کہ شام میں چار ہزار سے زائد ہلاکتوں کے دعوے ’انتہائی معتبر‘ اطلاعات پر مبنی ہیں اور صدر بشار الاسد اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کو ملک میں داخلے کی اجازت دیں۔
بان کی مون نے کینیا میں اپنے ایک بیان میں شامی صدر کے اس دعوے کو ناقابل یقین قرار دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ شام میں چند ہلاکتیں ہوئی ہیں اور مرنے والے زیادہ تر افراد سکیورٹی فورسز اور پولیس کے اہلکار تھے۔
’’تمام معتبر اطلاعات بتاتی ہیں کہ ہلاک ہونے والے چار ہزار سے زائد انسان حکومتی فورسز کی کارروائیوں کا شکار ہوئے۔ کمشنر برائے انسانی حقوق نے ان اطلاعات کی متعدد با اعتبار ذرائع سے تصدیق کی ہے۔‘‘
رواں ہفتے شامی صدر بشار الاسد نے ایک امریکی ٹی وی چینل سے اپنے ایک انٹرویو میں ہلاکتوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ شام میں مارچ سے اب تک ہلاک ہونے والوں میں گیارہ سو فوجی اور پولیس اہکار شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں کریک ڈاؤن اور ہزاروں افراد کی گرفتاریوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے بھی انکار کیا تھا۔ ’’کون کہتا ہے کہ اقوام متحدہ ایک معتبر ادارہ ہے۔‘‘
جمعے کے روز ناوی پلے نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں تسلیم کیا کہ تقریباً ایک ہزار سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہو سکتے ہیں تاہم کہا کہ شام میں ہلاکتوں کے حوالے سے جاری کردہ اعداد و شمار 220 عینی شاہدین کے بیانات کی روشنی میں مرتب کیے گئے ہیں، جنہیں بشار الاسد نے اپنے انٹرویو میں جھٹلایا ہے۔
ناوی پلے شام میں جمہوریت پسند مظاہرین کے خلاف جاری حکومتی کریک ڈاؤن اور وہاں اب تک ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیر کے روز بریفنگ دیں گی۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: امجد علی