بغداد سے باویریا: ایک عراقی فیملی کی رومانوی کہانی
9 ستمبر 201527 سالہ احمد اُس کی اہلیہ عالیہ اور اُن کا چار ماہ کا بچہ آدم جب بغداد سے چلے تھے تو انہیں امید نہیں تھی کے وہ خیر و عافیت کے ساتھ کسی محفوظ مقام تک پہنچ سکیں گے تاہم یہ خطرہ مول لینے کے سوا اُن کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔
عراق چھوڑنے کا فیصلہ
احمد نے عراق سے نکلنے کا فیصلہ گزشتہ برس فروری میں ہی کر لیا تھا۔ ہوا یوں کہ احمد اور عالیہ کی منگنی ہوئی جس کے بعد وہ اپنی مستقبل کی شریک حیات کو لے کر ’مسٹر چکن‘ ریستوران میں ڈنر کرنے گیا۔ ’’ اچانک ایک دھماکہ ہوا اور ریستوران کی کھڑکیوں کے شیشے چکنا چور ہو کر اُڑتے ہوئے ہمارے چہروں سے ٹکرائے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے احمد کی آواز بھرا گئی۔ شیشے چبھنے کے نتیجے میں ان دونوں، خاص طور سے عالیہ کے دلکش چہرہ پر لگنے والے زخموں کے نشان اب بھی نمایاں ہیں۔ عالیہ ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتی ہے تاہم اس کی تعلیم کا سلسلہ انتہا پسند اسلامک اسٹیٹ گروپ کے غلبے کے بعد رُک گیا۔ 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کے بعد سے اس ملک میں اسلامک اسٹیٹ نے تباہی مچانا شروع کر دی تھی۔
ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس 26 سالہ عالیہ کہتی ہے، ’’جب میں اسکول میں تھی، تب مجھ پر مسلح افراد نے حملہ کیا تھا اور مجھے جان سے مار دینے کی دھمکی دی گئی تھی کیونکہ میں حجاب نہیں پہنتی تھی‘‘۔ تاہم اس نے ہمت نہیں ہاری اور وہ بہتر مستقبل کے لیے پُر امید رہی۔ ’’ہمیں امید ہے کے کم از کم ہمارے کچھ خواب شرمندہ تعبیر ہو جائیں گے‘‘، علیہ نے یہ بیان بلغراد سے ہنگری کے علاقے کانجیزا کے لیے روانہ ہوتے وقت بس میں بیٹھ کر دیا۔
سیاسی پناہ کی تلاش
احمد نے سب سے پہلے امریکا میں سیاسی پناہ کے حصول کی کوشش کی مگر ناکام رہا جس کے بعد اُس نے یورپ کی طرف کا غیر قانونی راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ عالیہ کے والدین نہیں چاہتے تھے کے وہ اس خطرناک راستے پر چلے تاہم اُسے محسوس ہو گیا کہ اُس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ احمد بھی شروع میں ہچکچا رہا تھا، خاص طور سے جب اُس نے ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی وہ کشتی دیکھی جس پر سوار ہونے کے لیے ترکی میں اُن کا اسمگلر اُن پر زور دے رہا تھا۔ احمد اپنی بیوی اور بچے کو واپس عراق بھیجنا چاہتا تھا تاہم عالیہ اپنے ارادوں کی پکی نکلی اور اُس نے کہا، ’’یا ہم ساتھ جیئیں گے یا ساتھ مریں گے‘‘۔
دشوار اور طویل راستہ
احمد کی یہ چھوٹی سی فیملی عراق سے ترکی، یونان، مقدونیہ، سربیا، ہنگری، آسٹریا اور آخر کار جرمن صوبے باویریا پہنچی ہے۔ جرمنی تک پہنچنے کے لیے احمد کو نو ہزار یورو ادا کرنا پڑے تاہم قریب ڈھائی ہزار کلو میٹر طویل یہ سفر اُس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی بیوی اور بچے کو تحفظ و سلامتی فراہم کرے۔ احمد نے اس کے لیے عراق میں اپنا گھر اور ایک فیشن اسٹور بیچ دیا۔ یہ لوگ بلقان کے خطے میں قانونی طور پر داخل ہوئے۔ یہاں مقامی انتظامیہ میں اپنے ناموں کے اندراج کے لیے ان دونوں کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ کئی روز تپتی دھوپ میں کھڑے رہ کر اور کئی راتیں سردی سے ٹھٹھرتے گزارنا پڑیں۔ یہ خوف الگ کہ کہیں پر بھی یہ بارڈر انتظامیہ کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ بلقان میں زیادہ تر سرحدی علاقے انہوں نے پیدل طے کیے۔ ہنگری کے اندر اور اُس سے خروج میں یہ ایک عراقی کُرد اسمگلر کے پیچھے چلتے رہے اور انہیں یہ خدشہ لگا رہا کہ کسی بھی لمحے پکڑے جائیں گے۔ ہنگری سے آسٹریا کا سفر انہوں نے ایک اسمگلر کی گاڑی میں طے کیا۔ جہاں سرحد پر پہنچ کر اسمگلر نے اُن سے کہا کہ وہ گاڑی سے اتر کر پیدل سرحد پار کر لیں۔
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا پہنچنے پر انہیں لگا کہ وہ زندہ ہیں۔ کئی دنوں کی بھوک اور پیاس کے بعد ویانا کے ریلوے اسٹیشن سے احمد نے ایک کباب سینڈوچ خرید کر اپنی بیوی کے ساتھ آدھا آدھا شیئر کیا تاہم بچے کی بھوک مٹانے کے لیے عالیہ کا دودھ ختم ہو چُکا تھا کیونکہ کم خوراکی کی وجہ سے دودھ بن ہی نہیں رہا تھا۔ ویانا سے جرمن شہر میونخ پہنچنے پر انہیں ایک بار پھر شدید پریشانی کا سامنا اس وقت ہوا جب انہیں جرمن پولیس نے پکڑ کر ایک عارضی خیمے میں پہنچا دیا تاکہ ان کا اندراج کیا جا سکے۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں کئی خاندان جمع تھے۔ عالیہ نے جگہ کی تنگی کی شکایت کی تو پولیس اہلکاروں نے جواب دیا، ’’یہ مہاجر کیمپ ہے ہوٹل نہیں‘‘۔ اب یہ فیملی کسی طرح کولون شہر پہنچ گئی ہے جہاں احمد کی بہن آباد ہے۔
جرمنی آنے والے مہاجرین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہیں اس ملک میں ایک ایسی جگہ تلاش کرنے میں ابھی کافی وقت لگ جائے گا جسے یہ اپنا گھر کہہ سکیں۔