داعش خراسان کا آپریشنل کمانڈر سلمان بادینی ہلاک
17 مئی 2018شدت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں پاکستانی ملٹری انٹیلی جنس کے سینیئر افسر کرنل سہیل عابد بھی ہلاک جبکہ چار دیگر اہلکار زخمی ہوئے۔ کارروائی کے دوران شدت پسندوں کے ٹھکانے سے بھاری اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا ہے۔
فوج کے محکمہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انٹیلی جنس آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والا شدت پسند سلمان بادینی ہزارہ برادری کے سو سے زائد افراد کے قتل میں ملوث تھا۔
مسيحی خاندان کا قتل، اسلامک اسٹيٹ نے ذمہ داری قبول کر لی
آئی ایس پی آر کے مطابق مقابلے میں ہلاک ہونے والے دیگر دو افراد خودکش حملہ اور تھے جو کہ افغانستان سے پاکستان آئے تھے۔ ان خودکش حملہ آوروں کو سلمان بادینی کی سکیورٹی پر تعینات کیا گیا تھا۔
اس اعلیٰ سطحی آپریشن کے دوران کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی کے ایک اور کمانڈر کو زخمی حالت میں گرفتار بھی کیا گیا ہے تاہم اس کی شناخت اب تک ظاہر نہیں کی گئی ہے۔
سلمان بادینی کی تلاش ایک عرصے سے جاری تھی
کوئٹہ میں تعینات ایک سینیئر سیکیورٹی اہلکار خرم درانی کے بقول کلی الماس میں انٹیلی جنس آپریشن پہلے سے زیر حراست شدت پسندوں سے تحقیقات کے دوران حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں کیا گیا۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے درانی نے کہا، ’’ملٹری انٹیلی جنس اور انسداد دہشت گردی کی خصوصی ٹیم نے یہ اہم کارروائی اس وقت کی جب کلی الماس میں شدت پسندوں کے خفیہ ٹھکانے کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لیا گیا۔ اس کارروائی کے دوران انٹیلی جنس حکام کو ایس ایس جی کمانڈوز کی معاونت بھی حاصل رہی۔ شدت پسند ایک کمپاؤنڈ میں روپوش تھے۔ ملزمان نے گرفتاری سے بچنے کے لیے کافی دیر سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ مقابلہ کیا۔‘‘
خرم درانی نے مزید بتایا کہ اس کارروائی کے دوران ہلاک ہونے والے شدت پسند کمانڈر سلمان بادینی کو لشکر جھنگوی کے سابق سربراہ عثمان سیف اللہ کی ہلاکت کے بعد تنظیم کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔
درانی کے بقول، ’’یہ ایک بہت اہم کامیابی ہے جو اس آپریشن کے دوران حاصل کی گئی ہے۔ سلمان بادینی کی گرفتاری کے لیے سیکیورٹی ادارے بلوچستان کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں میں بھی گزشتہ کئی عرصے سے کارروائی کر رہے تھے۔ ملزم نے گرفتاری سے بچنے کے لیے کئی خفیہ ٹھکانے بھی قائم کر رکھے تھے جہاں اپنے سکیورٹی مکینزم کے مطابق وہ روپوش ہوتا رہتا تھا۔‘‘
خرم درانی کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والا شدت پسند ہزارہ کمیونٹی کے افراد پر ہونے والے حملوں میں ملوث تھا۔ ان کے بقول 2016 سے لے کر اب تک بلوچستان میں ہونے والے کئی بڑے حملوں کا ماسٹر مائنڈ بھی سلمان بادینی تھا۔
بلوچستان میں شدت پسندوں کو ایک بڑا دھچکا
وفاقی انٹیلی جنس ادارے سے وابستہ ایک اور سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کلی الماس میں ہلاک ہونے والا لشکر جھنگوی کا سربراہ سلمان بادینی نے تربیت اور دیگر تنظیمی امور کے لیے افغانستان کے مختلف حصوں میں کئی سال بھی گزارے تھے: ’’بنیادی طور پر لشکر جھنگوی اور داعش ایک ہی پیج پر ہیں اسی لیے یہ دونوں تنظیمیں اپنے اہداف پر مشترکہ حملے بھی کرتی ہیں۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا ہے کہ کوئٹہ میں 2017ء سے اب تک ہونے والے کئی بڑے دہشت گردانہ حملے جن کی ذمہ داری داعش خراسان نے قبول کی ہے وہ لشکرجھنگوی کے شدت پسندوں کی جانب سے کیے گئے تھے۔‘‘
اس انٹیلی جنس اہلکار کے بقول لشکر جھنگوی کے سربراہ کی ہلاکت سے بلوچستان میں شدت پسندوں کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے: ’’سلمان بادینی عرف عابد کوئٹہ کے شورش زدہ علاقےسریاب کا رہائشی تھا۔ اس نے کوئٹہ میں دہشت گردی پھیلانے کا ایک بڑا منصوبہ بھی تیار کیا تھا جسے ناکام بنادیا گیا۔‘‘
ہزارہ برادری کے لیے باعث اطمینان
دفاعی امور کے تجزیہ کار ندیم احمد کے بقول لشکر جھنگوی کے سربراہ کی ہلاکت سے صوبے میں قیام امن کی صورتحال پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’یہ ایک خوش آئند عمل ہے کہ حکومت یہاں قیام امن کے لیے سنجیدگی سے اقدمات کر رہی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف نتیجہ خیز کارروائیوں سے امن و امان کی صورتحال میں خاطر خواہ بہتری سامنے آئے گی۔ بلوچستان سے داعش اور لشکر جھنگوی کے کئی دیگر اہم کمانڈروں کو بھی مختلف کارروائیوں کے دوران گرفتار کیا جا چکا ہے۔ کچھ دن پہلے بھی لشکر جھنگوی کے اہم کمانڈر عبدالرحیم محمد شہی کو گرفتار کیا گیا تھا۔‘‘
فوجی سربراہ سے مذاکرات کے بعد ہزارہ برادری کا احتجاج ختم
ہزارہ برادری کی ہلاکتیں ’نسل کشی‘ ہے، ثاقب نثار
ندیم احمد نے مزید کہا، ’’اس حالیہ کارروائی سے عسکریت پسندوں کے حملوں سے متاثرہ ہزارہ برادری اور دیگر متاثرہ خاندانوں کو بہت اطمینان حاصل ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ قانون کی عمل داری قائم ہونے سے سکیورٹی اداروں پر بلو چستان کے مقامی لوگوں کا وہ کھویا ہوا اعتماد بھی بحال ہو جائے گا جو کہ بد امنی کی وجہ سے دن بدن کم ہو تا جارہا تھا۔ شدت پسندوں کو بہت عرصے بعد اتنا بڑا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ان کارروائیوں سے انصاف کے تقاضے بھی پورے ہو سکیں گے۔‘‘
ندیم ا حمد کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں شدت پسندوں کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھی مؤثر کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ ان کا سپورٹ نیٹ ورک بھی ختم ہو سکے۔