1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتایشیا

بنگلہ دیش: معروف روہنگیا کارکن کا قتل

30 ستمبر 2021

روہنگیا مسلمانوں کے لیے کام کرنے والے معروف کارکن محب اللہ کو بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ کئی عالمی تنظیموں نے اس واقعے پر گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے قتل کی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4147Q
Rohingya-Führer Mohib Ullah in Bangladesch getötet
تصویر: Munir Uz Zaman/AFP

اقوام متحدہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ روہنگیا مہاجرین کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم کارکن محب اللہ کو بدھ کی شام کو بنگلہ دیش کے جنوبی کاکس بازار میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔  وہ روہنگیا مسلمانوں کے لیے اپنی فلاحی سرگرمیوں کے سبب بین الاقومی سطح پر معروف تھے۔  

 تقریبا ًپچاس برس کے محب اللہ پیشے سے ٹیچرتھے اور روہنگیا کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے آواز اٹھاتے رہے تھے۔ وہ بھی سنہ 2017 میں میانمار میں فوجی کریک ڈاؤن کی وجہ سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچے تھے اور وہیں پناہ لے رکھی تھی۔ وہ اپنی پناہ گزین برادری کے لیے نہ صرف کافی سرگرم تھے بلکہ وہ ان کی آواز بھی سمجھے جاتے تھے۔

محب اللہ کے دفتر میں کام کرنے والے ایک شخص نے خبر رساں ادارے اے ایف کو بتایا کہ بدھ کے روز جس وقت ان پر گولی چلائی گئی، وہ مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے دفتر کے باہر بعض دیگر پناہ گزینوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ اسی وقت ایک غیر نامعلوم شخص نے ان پر کم سے کم تین بار فائرنگ کی۔

ان کا کہنا تھا، ''ان پر چھپ کر بالکل قریب سے فائرنگ کی گئی۔'' اس سے وہاں پر موجود بہت سے دیگر روہنگیا پناہ گزین ڈر کے مارے بھاگنے اور چپنے پر مجبور ہو گئے۔ بعد میں انہیں کیمپ کے ہی ایک اسپتال میں لے جایا گیا۔ تاہم طبی عملے نے بتایا کہ انہیں اسپتال مردہ حالت میں لایا گیا تھا۔

علاقے کے ایک سینیئر پولیس افسر رفیق اسلام نے اس قتل کی تصدیق کی تاہم انہوں نے اس کی تفصیلات بتانے سے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ ابھی کچھ بھی واضح نہیں ہے۔

موت پر ماتم اور تفتیش کا مطالبہ

اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں سے متعلق ادارے کے ایک ترجمان نے محب اللہ کے قتل پر گہرے صدمے اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا، ''ہم اس سلسلے میں کیمپوں میں امن و سلامتی کو برقرار رکھنے والے ذمہ داران اور قانون نافذ کرنے والے حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔''

Rohingya-Flüchtlingslager Kutupalong
تصویر: Jibon Ahmed

 جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ڈائریکٹر میناکشی گانگولی نے بھی محب اللہ کی موت پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیونٹی کے لیے ان کی آواز بہت اہم تھی اور اس سے اسے غیر تلافی نقصان پہنچا ہے۔

تنظیم نے اس واقعے کی مکمل تفتیش کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بنگلہ دیش کے حکام اور پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کی ایجنسی کو ان افراد کے تحفظ کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تنظیم نے روہنگیا پناہ گزینوں کے تحفظ کے بارے میں گزشتہ برس بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کے لیے اضافی اقدامات کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔

تشدد میں اضافہ

بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے بیشتر روہنگیا مسلمانوں نے کاکس بازار نامی شہر میں پناہ لے رکھی ہے جہاں تقریبا ًدس لاکھ پناہ گزین رہتے ہیں اور اسے دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تمام پناہ گزین میانمار سے جان بچا کر کسی طرح بنگلہ دیش پہنچے ہیں تاہم یہاں بھی ان کی زندگی مشکل ترین حالات سے گزر رہی ہے۔ 

حالیہ مہینوں میں ان پناہ گزینوں کے خلاف تشدد میں کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ علاقے میں مسلح افراد اکثر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ناقدین کو اغوا کر لیتے ہیں جبکہ بعض دیگر گروپ خواتین کو قدامت پسند اسلامی اصولوں کو توڑنے سے باز رکھنے کے لیے انہیں متنبہ کرتے رہتے ہیں۔

محب اللہ امید کی کرن تھے

محب اللہ نے امن اور حقوق کی پاسبانی کے لیے اراکان روہنگیا سوسائٹی قائم کی تھی، جو ان پناہ گزینوں کے لیے مسلسل جد و جہد میں لگی رہتی

 تھی۔ اسی تنظیم نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار فوج کی ظلم و زیادتیوں کا بھی ریکارڈ جمع کیا تھا۔ اقوام متحدہ نے ان زیادتیوں کو نسل کشی سے تعبیر کیا ہے۔

محب اللہ نے قتل اور غارت گری کے واقعات کو عالمی برادری کے سامنے اس انداز میں ذکر کیا تھا کہ عالمی برادری نے اس معاملے کی تفتیش کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے 2019 میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو بتایا تھا کہ روہنگیا چاہتے ہیں کہ ان کے بارے میں جو فیصلے کیے جاتے ہیں وہ اس کا حصہ بنیں۔ انہوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی تھی اور وہاں بھی اپنے خطاب میں روہنگیاؤں کی تکالیف اور مسائل کے بارے میں بات کی تھی۔

ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)

بھارت میں لاک ڈاؤن اور روہنگیا کی حالت زار

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں