بچپن کی شادی کی فرسودہ روایات کے خلاف کھڑی ہونے والی لڑکی
18 اکتوبر 2015سنتا دیوی میگھوال گیارہ ماہ کی تھی جب اُس کے گھر والوں نے اُسے ایک قریبی گاؤں کے 9 سال کی عمر کے ایک لڑکے کے ساتھ شادی کے بندھن میں باندھ دیا تھا۔ یہ واقعہ ہے بھارتی ریاست راجھستان کے صحرائی علاقے کا جہاں ہمیشہ سے کم عمر لڑکیوں کی شادی معمول کی بات ہے۔
اُسے یاد ہے کہ اُس نے اپنے شوہر کو پہلی بار اُس وقت دیکھا تھا جب وہ 16 سال کی تھی۔ اُس کی ایک دوست نے اُسے اسکول کے باہر کھڑے ایک شرابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ گالیاں بکنے والا یہ شرابی اُس کا شوہر ہے۔ سنتا کی دوست نے اپنی اس بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے یہ بھی کہا کہ جب سنتا نے پاؤں پاؤں چلنا شروع کیا تھا تب اُس کی شادی اس لڑکے کے ساتھ کر دی گئی تھی شادی کی اُس تقریب میں اُس کے گھروالے شریک تھے۔
سنتا کا کہنا تھا،’’میری دوست اچانک میری طرف مُڑی اور اُس نے مجھ سے کہا کہ دیکھو، یہ تمہارا شوہر ہے‘‘۔ سُنتا کے بقول یہ سنتے ہی اُس کا دل بیٹھنے لگا اور وہ بھاگتی ہوئی اپنے گھر پہنچی اور اپنے والدین سے اس بارے میں جھگڑنا چاہتی تھی۔ ’’ میں نے اُن سے پوچھا کہ میری شادی کیوں کر دی گئی تھی؟ اُس وقت میری عمر ہی کیا تھا، مجھے تو نہ عقل تھی نا سمجھ؟‘‘ سنتا نے یہ منظر کشی جودھ پور یونیورسٹی میں ایک بنچ پر بیٹھ کر کی جہاں وہ آرٹس کے شعبے میں زیر تعلیم ہے اور یہ اُس کا آخری سال ہے۔
غیر قانونی ہونے کے باوجود رائج
بھارت کے پسماندہ اور غربت زدہ علاقوں میں آج بھی فرسودہ روایات کی جڑیں مضبوط ہیں اور وہاں بچوں کی شادیاں بہت بچپن ہی میں کردی جاتی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 20 سے 24 سال کی درمیانی عمر کی بھارتی خواتین میں سے تقریبناً 50 فیصد کی شادی 18 سال سے کم عمر میں کر دی جاتی ہے اور یہ بھارتی فیملی لاز کے تحت غیرقانونی فعل ہے۔
اتنی دشوار گزار صورتحال کے باوجود بھارت میں حکومتی کریک ڈاؤن اور این جی اوز یا غیر سرکاری اداروں کی مدد سے نوجوانوں کی ایک چھوٹی سی تعداد اس فرسودہ روایت کے خلاف جنگ کر رہی ہے اور بچپن میں کر دی جانے والی اپنی شادیوں کو قانونی طور پر چیلنج کرنے لگی ہے۔ اب یہ نوجوان اپنی ایسی شادی کو ساقط یا بے اثر قرار دینے لگے ہیں اور اس مہم میں انہیں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔
مردوں کی اجارہ داری
یہ امر اہم ہے کہ راجھستان کے دیہات میں ایک ہی ذات کے مردوں پر مشتمل لوکل کونسلیں سماجی اور سیاسی امور کو کنٹرول کرتی ہیں۔ یہ گرفت سیاسی اور قانونی خیال کی جاتی ہے اور اِس باعث سماجی اور معاشرتی زندگی مردوں کے کنٹرول میں ہے۔ ان دیہات میں شادی سے انکار کرنے والی لڑکیوں کی زندگیاں مشکل ہو جاتی ہیں۔ انہی میں سے ایک سنتا اور اس کے والدین کو مقامی پنچایت نے شادی برقرار نہ رکھنے پر 16 لاکھ بھارتی روپے کے جرمانے کے علاوہ علاقہ بدری کا حکم بھی دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ سنتا کا والد اتنی بڑی رقم ادا کرنے سے قاصر ہے۔
سنتا دیوی میگھوال نے ساراتھی ٹرسٹ سے رجوع کیا جس کے بقول یہ بھارت کا واحد ادارہ ہے جو بچپن کی شادی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے ساقط کر دیتا ہے۔ اس ٹرسٹ کی سربراہ کیرتی بھارتی کہتی ہیں،’’ چائلڈ میرج یا بچپن کی شادی ایک بڑے اندھیرے کمرے کی طرح ہے جس میں ایک باریک سی امید کی کرن ایک چھوٹے سے قانون کی شکل میں نظر آتی ہے‘‘۔
کیرتی بھارتی کا ادارہ راجھستان میں 27 ایسی شادیوں کو منسوخ کر چُکا ہے۔ ان شادیوں کو کالعدم قرار دینے کے عمل کو طلاق پر فوقیت دی جاتی ہے کیونکہ طلاق کا عمل نہیات وقت طلب اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت میں شادی کو کالعدم قرار دے کر اسے ساقط کردینے کا عمل نسبتاً جلدی نمٹ جاتا ہے۔ اس میں دونوں فریقوں کی رضامندی شامل ہوتی ہے اور اس میں سب سے اہم کردار دونوں کی عمروں کے ثبوت کا ہوتا ہے۔