بھارتی وزیر اعظم کا دورہ ء بنگلہ دیش
6 ستمبر 2011بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ اپنے تاریخی دورہ ء بنگلہ دیش کے دوران جب ڈھاکہ پہنچے تو ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے ہی بھارت کی کوشش ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات بہتر رہیں۔ تاہم حالیہ کچھ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات میں کچھ سرد مہری پیدا ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نئی دہلی حکومت کو یہ خدشہ ہے کہ انتہا پسند بنگلہ دیش کی سر زمین کو بھارت کے خلاف کارروائیوں میں استعمال میں لا رہے ہیں۔
بھارت اور بنگلہ دیش کے کئی حکام نے کہا ہے کہ منموہن سنگھ کے اس دورے کے دوران دونوں ممالک کے مابین آبی وسائل کے مشترکہ استعمال پر معاہدہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔ ہمالیہ سے نکلنے والے دو اہم دریا تیستا اور فینی بھارت اور بنگلہ دیش سے گزرتے ہوئے خلیج بنگال گرتے ہیں۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلٰی ممتا بینر جی نے بنگلہ دیش کے ساتھ آبی وسائل کی تقیسم کے حوالے سے مجوزہ معاہدے کو مسترد کر دیا ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ منموہن سنگھ اور بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی طرف سے اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے مغربی بنگال کی حکومت کی منظوری ناگزیر ہے۔
بنگلہ دیش کی وزیر خارجہ دیپو مونی نےگزشتہ روز صحافیوں سے گفتگو کے دوران امید ظاہر کی تھی کہ منموہن سنگھ کے اس دورے کے دوران اس معاملے پر کوئی مثبت پیشرفت ہو سکتی ہے تاہم منگل کو وزرات خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہےکہ کم ازکم سنگھ کے رواں دورے کے دوران آبی وسائل کے حوالے سے کسی ڈیل کی کوئی توقع نہیں ہے۔
اسی طرح بھارت کی طرف سے ٹرانزٹ راستے کی پیشکش پر ڈھاکہ حکومت تحفظات رکھتی ہے۔ ڈھاکہ حکام کے مطابق اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے ابھی تک کوئی ضوابط طے نہیں کیے گئے ہیں، اس لیے سنگھ کے دورے کے دوران اس معاملے پر بھی پیشرفت کا امکان کم ہی ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ وہ اپنےشمال مشرقی علاقوں تک رسائی کے لیے بنگلہ دیش کے راستے زمینی یا ریل کا ٹرانزٹ روٹ استعمال کر سکے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: حماد کیانی