بھارتی ٹیلی ویژن کا بدلتا رُوپ
21 اپریل 2010بھارت کو روایات سے جڑا ملک قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم اس کے ٹیلی ویژن شیڈول امریکہ یا دیگر مغربی ممالک کی طرز پر بن چکا ہے۔ خبررساں ادارے AFP کی ایک رپورٹ کے مطابق’ایموشنل اتیاچار‘ اور ’سچ کا سامنا‘ جیسے پروگراموں کے مرکزی خیال سے ایسا ظاہر ہوتا ہے، جیسے وہ پرانی نسل کو حیرت زدہ کرنے کے لئے ترتیب دیے گئے ہوں۔
اب تک متوسط طبقے کے بھارتی شہری ساس بہو کے جھگڑوں کی کہانیوں پر مبنی ڈراموں میں الجھے ہوئے تھے۔ ان کھیلوں کی مقبولیت کے دن بھی نہیں گئے، پھر بھی بیشتر نجی ٹیلی ویژن چینلز نے اپنا پرائم ٹائم متنازعہ موضوعات پر مبنی پروگراموں کو دے دیا ہے، جو معاشرتی تبدیلی کی ایک طاقت کے طور پر ابھر رہے ہیں۔
ممبئی کے ایک ماہر عمرانیات رَگو جھا کہتے ہیں، ’بھارت میں منفی جذبات ہمیشہ رہے ہیں، تاہم وہ یا تو چھپے ہوئے تھے، یا انہیں خوبصورتی سے پوشیدہ رکھا گیا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ایسے موضوعات پر کھلے عام بات کر کے ٹیلی ویژن پروگراموں نے انہیں درست قرار دینے کا ایک راستہ ڈھونڈ نکالا ہے، ساتھ ہی انہیں قابل قبول بھی بنا دیا ہے۔
رَگو جھا کہتے ہیں، ’یہ شوز لاکھوں شہریوں کو ایسا یقین کرنے پر تیار کر رہے ہیں کہ گالی دینا ٹھیک ہے، بدتمیزی کرنا اچھا ہے اور جنسی تجربوں کا کھلے عام بیان درست ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں پراڈکشن کمپنیاں ’امریکن آئیڈل‘، ’دی موومنٹ آف ٹرتھ‘، ’بِگ برادر‘، ’دی فیئر فیکٹر‘ اور ’آئی ایم آ سیلیبرٹی‘ جیسے معروف یورپی اور امریکی پروگراموں کے بھارتی ورژن تیار کر چکی ہیں۔
بھارت میں ایسے پروگراموں کی مقبولیت میں اضافہ تین سال قبل اس وقت ہوا، جب بالی وُڈ اسٹار شلپا شیٹی نے برطانیہ کے ٹیلی ویژن شو ’بگ برادر‘ میں شرکت کی۔ اس وقت انہیں شو کی میزبان جیڈ گُوڈی کی جانب سے نسلی تعصب پر مبنی بیانات کا سامنا بھی کرنا پڑا، جس پر برطانوی اور بھارتی حکومتوں نے رد عمل بھی ظاہر کیا جبکہ شوبند کردیا گیا۔ واضح رہے کہ گُوڈی گزشتہ برس سرطان کے مرض کے باعث انتقال کر گئی تھیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عدنان اسحاق