بھارتی کشمیر: سرکاری ملازم کشمیری پنڈت کے قتل کے خلاف احتجاج
13 مئی 2022بھارت کے زیر انتظام خطہ جموں و کشمیر کے کئی حصوں میں گزشتہ رات سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، جہاں کشمیری پنڈت برادری سے تعلق رکھنے والے ایک 36 سالہ سرکاری ملازم کو رات کے وقت قتل کر دیا کیا گیا تھا۔ مظاہرین حکومت سے وادی میں کام کرنے والے پنڈت ملازمین کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
قتل کے بعد پنڈت کمیونٹی کے ارکان اپنے ٹرانزٹ کیمپوں سے باہر نکل آئے اور سڑکوں کو جام کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے مرکز کی مودی حکومت اور حکمران جماعت بی جے پی کے خلاف بھی نعرے بازی کی۔
بھارتی کشمیر گزشتہ تقریبا تین برسوں سے مودی کی مرکزی حکومت کے زیر کنٹرول ہے اور ایسی سخت سکیورٹی کے حصار میں کہ تمام طرح کی سیاسی سرگرمیوں اور احتجاجی مظاہروں پر پابندیاں عائد ہیں۔
حالیہ برسوں میں یہ پہلا موقع ہے جب پنڈت کمیونٹی کے ایک شخص کی ہلاکت کے بعد اس طرح سے کھل کر لوگ سڑکوں پر نکلے ہیں اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کے باوجود اس پر کنٹرول کی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔
تازہ واقعہ کیا ہے؟
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ رات ضلع بڈگام میں عسکریت پسندوں نے ایک 36 سالہ سرکاری ملازم راہول بھٹ کو قتل کر دیا۔ پولیس کے مطابق وادی کشمیر میں ہندو کمیونٹی کے لوگوں کو مبینہ طور پر ہدف بنا کر قتل کرنے کا جو سلسلہ ہے، یہ واردات بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔
پولیس کے مطابق عسکریت پسندوں نے راہول بھٹ پر قریب سے گولی چلائی اور پھر وہ فرار ہونے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ کشمیر کے ایک قدرے غیر نا معلوم عسکریت پسند گروپ ’کشمیر ٹائیگرز‘ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اس ہلاکت کی خبر کے بعد ہی خطے کے مختلف مقامات پر موجود ہندوؤں نے رات کے وقت ہی احتجاج شروع کر دیا، جو جمعے کو بھی جاری رہا۔ مظاہرین جموں کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا، وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف بھی نعرے بازی کر رہے تھے۔
کشمیری پنڈتوں کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے
اس دوران ہلاک ہونے والے راہول بھٹ کی اہلیہ میناکشی بھٹ نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے شوہر پہلے سے غیر محفوظ محسوس کر رہے تھے، اسی لیے انہوں نے وہاں سے تبادلے کی کوششیں کیں، تاہم حکام میں سے کسی بھی نے ان کی اس فریاد کو نہیں سنا۔
ایک بھارتی میڈیا ادارے سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ’’وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کشمیری پنڈتوں کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ وہ اپنی سیاست کے لیے کشمیری پنڈتوں کو توپ کے چارے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ میں انہیں چیلنج کرتی ہوں کہ وہ کشمیر آئیں اور بغیر سکیورٹی کے گھوم پھر کر دکھائیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’کشمیری پنڈتوں پر ظلم ہو رہا ہے اور قوم خاموش ہے۔ وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کشمیری پنڈتوں کے معاملے سے پوری طرح سے لاتعلق ہیں۔‘‘
محبوبہ مفتی پھر نظر بند
وادی کشمیر کے ہند نواز رہنماؤں نے اس ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ گورنر منوج سنہا کا کہنا ہے کہ قصورواروں کو بخشا نہیں جائے گا۔
ادھر کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے اپنی ایک ٹویٹ میں اطلاع دی ہے کہ اس واقعے کے بعد انہیں گھر میں پھر سے نظر بند کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے لکھا، ’’میں بڈگام کا دورہ کرنا چاہتی تھی تاکہ کشمیری پنڈتوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر سکوں، جو اپنی سکیورٹی سے متعلق حکومت کی ناکامی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’تاہم مجھے میرے گھر میں پھر سے نظر بند کر دیا گیا ہے۔ کشمیری مسلمان اور پنڈت تو ایک دوسرے کے مصائب و درد سے ہمدردی رکھتے ہیں، تاہم یہ ان کے (بی جے پی) کے فرقہ وارانہ شیطانی بیانیے میں فٹ نہیں آتا ہے۔‘‘
کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ
بھارتی حکومت نے سن 2010 میں خصوصی روزگار پیکیج کے ایک پروگرام کے تحت کشمیری پنڈتوں کو کشمیر میں سرکاری ملازمتیں دینی شروع کی تھیں۔ اس طرح کے چار ہزار سے زیادہ کشمیری پنڈت کشمیر کے مختلف حصوں میں ٹرانزٹ کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔
لیکن دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے ان کے خلاف بھی تشدد شروع ہوا اور گزشتہ اکتوبر سے ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس میں سے بیشتر متاثرین باہر سے آنے والے مزدور اور کشمیری پنڈت ہیں، جو کام اور ملازمت کی تلاش میں کشمیر میں تھے۔
گزشتہ اکتوبر میں پانچ دن کے اندر ہی سات عام شہری مارے گئے تھے، جس میں ایک کشمیری پنڈت، ایک سکھ اور دو مہاجر ہندو مزدر شامل تھے۔ ان واقعات کے بعد ہی، ہندو برادری کے لوگ شیخ پورہ میں اپنے گھر بار چھوڑ کر کشمیر سے فرار ہونے لگے تھے۔ یہ علاقہ ہندوؤں کی آبادی کے لیے معروف ہے۔