بھارت، بنگلہ دیش سرحد پر مسلسل انسانی ہلاکتیں، ذمہ دار کون؟
21 اگست 2020بھارت کے خارجہ سیکریٹری ہرش وردھن شرینگلا کے دورہ ڈھاکہ کے دوران بنگلہ دیش نے بھارتی حکام سے اس بات پرگہری تشویش ظاہر کی کہ رواں برس کے پہلے چھ ماہ میں بھارتی بارڈرد سکیورٹی فورسز (بی ایس ایف) کی جانب سے سرحد پر لوگوں کو ہلاک کرنے کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
بنگلہ دیش اور چین کے درمیان بڑھتے تعلقات کے حوالے سے بھارت میں زبردست بے چینی کا ماحول ہے اور اسی مناسبت سے اس ہفتے بھارتی خارجہ سکریٹری ڈھاکہ کے دورے پر تھے جہاں نہوں نے بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ سے ملاقات کی۔ ان میٹنگوں کے بعد بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کی جانب سے جو بیانات سامنے آئے اس میں سرحد پر قتل کی بڑھتے واقعات کا خصوصی ذکر تھا۔
بنگلہ دیش کے خارجہ سکریٹری مسعود بن مومن نے بات چیت کے بعد کہا کہ بھارت کے ساتھ اس اہم اور کلیدی معاملے پر بھی بات ہوئی ہے۔ ان کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا، '' بنگلہ دیش نے اس بات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات باہمی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے اور بھارتی بارڈر سکیورٹی فورسز پر لازم کہ وہ اس طرح کی حرکتوں سے باز رہے۔ بھارتی فریق نے یقین دلایا ہے کہ بی ایس ایف حکام کو اس معاملے کی سنگینی سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور بنگلہ دیشی فورسز 'بی جی بی' اور بی ایس ایف کے مابین ڈی جی سطح کے مذاکرات میں اس مسئلے پر اگلے ماہ ڈھاکہ کی میزبانی میں تفصیلی تبادلہ خیال کیا جائیگا۔''
حالیہ مہینوں میں دیکھا گیا ہے کہ بنگلہ دیش اور بھارت کی سرحد پر انسانوں کی ہلاکت میں زبردست اضافہ ہوا جس پر انسانی حقوق کی کئی عالمی تنظیمیں گہری تشویش ظاہر کر چکی ہیں۔
ماہرین کے مطابق بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحد پر ایک طویل مدت سے انسانی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے جس کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے چند برس قبل اپنی رپورٹ میں اس علاقے میں تعینات بی ایس ایف کو 'ٹریگر ہیپی فورسز' قرار دیا تھا۔
کولکاتہ میں انسانی حقوق کے معروف کارکن اور تنظیم 'معصوم' کے سکریٹری کیرتی رائے اس مسئلے پر گزشتہ چار عشرں سے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں کہا کہ تمام کوششوں کے باوجود اس میں ''کمی کے بجائے وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور صورت حال کافی سنگین ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر برس بی ایس ایف کے ہاتھوں 100 سے 120 افراد تک ہلاک کیے جارہے ہیں۔''
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سرحد پر لوگوں کے قتل میں اضافے کی اہم وجہ بھارتی حکومت کی پالیسیاں ہیں۔منموہن سنگھ حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ سرحد ی تشدد سے بچا جائے جبکہ ''مودی حکومت کا نعرہ ہے کہ ہمیں اپنی ماں یعنی گائے کو بچانا ہے۔ تو وزارت داخلہ کے یہ اپنے خود کے فیصلے ہیں۔''
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ گائے کے تحفظ کے حوالے سے کچھ زیادہ ہی پریشان ہیں۔''ہلاکتیں اس لیے ہورہی ہیں کہ حکام اس کے لیے جوابدہ نہیں ہیں۔ انہیں استثنی حاصل ہے اور انصاف کا کوئی نظام نہیں ہے۔ انسانی حقوق کے ادارے اور حکومتیں اس معاملے میں بے اثر ہوچکی ہیں۔ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے میں وہ کم سے کم بین الاقوامی قوانین کا تو احترام کرے۔''
کیرتی رائے کا کہنا تھا کہ بی ایس ایف سرحد پر تعینات نہیں ہے بلکہ وہ ملک کے اندر بیٹھے ہوتے ہیں اور ا نکی ذمہ داری یہ ہے کہ علاقے کے جو بھی غریب بے روزگار لوگ مویشی بنگلہ دیش لے کر جانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں روکنا چاہیے۔ ان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے۔ ''لیکن ایساکرنے کے بجائے بی ایس ایف انہیں ہلاک کر دیتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اب تو لا پتہ افراد کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ صرف غیر آئینی ہی نہیں بلکہ غیر انسانی بھی ہے اور مدتوں سے جاری ہے۔ ہمیں اس کی ہر سطح پر مذمت کرنی چاہیے۔''
کیرتی کا کہنا تھا کہ بی ایس ایف جن افراد کو سرحد پر نشانہ بناتی ہے اس میں سے اسّی فیصد کا تعلق بھارت سے ہے جبکہ باقی کا تعلق بنگلہ دیش سے ہوتا ہے۔ اس سے بھارتی ریاست مغربی بنگال اور آسام کے بیشتر غریب مسلمان متاثر ہوتے ہیں۔
بنگلہ دیش نے بھارت سے یہ معاملہ اس لیے اٹھایا کیونکہ اس کے بھی بہت سے شہری بی ایس ایف کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ اس موقع پر بنگلہ دیش نے بھارت سے تبلیغی جماعت کے ان افراد کو بھی واپس بھیجنے میں مدد کرنے کی اپیل کی جو کورونا وائرس کے سبب بھارت میں اب بھی پھنسے ہوئے ہیں اور ان ماہی گیروں کو بھی چھوڑنے کی گزراش کی ہے جو آسام کے ڈھبری ضلع میں پھنسے ہوئے ہیں۔