بھارت: بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے باوجود لاک ڈاؤن میں نرمیاں شروع
8 جون 2020حکومت کے اس فیصلے، جسے اس نے اَن لاک وَن کا نام دیا ہے، پر عالمی ادارہ صحت کے علاوہ ماہرین صحت اور ملک کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی سوالات اٹھائے ہیں۔
خیال رہے کہ بھارت میں 25 مارچ کو جب وزیر اعظم مودی نے پہلی مرتبہ ملک گیر لاک ڈاون کا اعلان کیا اس وقت کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد تقریباً 500 تھی لیکن اب جبکہ پیر آٹھ جون سے اَن لاک وَن شروع ہورہا ہے، ملک میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زائد ہوچکی ہے اور اس میں ہر روز دس ہزار سے زائد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
اپوزیشن کانگریس نے اَن لاک وَن کے فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے۔ کانگریس کے ترجمان اجے ماکن نے سوال کیا ”جب مریض ڈھائی لاکھ ہورہے ہیں تو اَن لاک کیا جارہا ہے اور جب صرف 500 مریض تھے تو اچانک لاک ڈاون کردیا گیا؟ آخر یہ کون سی پالیسی کے تحت کیا جارہا ہے؟ حکومت کا یہ فیصلہ غلط ہے۔
سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا نے کووڈ۔19 سے نمٹنے کے نریندر مودی حکومت کے طریقہ کار پر طنز کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا”میرے پیارے دیش واسیو! بھارت اور دنیا میں پانچواں سب سے زیادہ کورونا متاثر ملک ہے۔ یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ ہم پانچویں مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ جب ہمیں لاک ڈاون میں نہیں رہنا تھا تب ہم نے اسے نافذ کیا اور جب ہمیں لاک ڈاون میں رہنا چاہیے تھا تو ہم اسے ہٹا رہے ہیں۔دیکھا میرا کمال۔“
حکومت نے تاہم اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اَن لاک وَن کا فیصلہ ماہرین کے صلاح و مشورے کے بعد ہی کیا ہے اور جو تجربات ہو رہے ہیں ان کی بنیاد پر وہ کووڈ 19 کے خلاف اپنے لائحہ عمل کو درست کررہی ہے۔ وزارت صحت نے اپنے بیان میں کہا کہ گوکہ آج سے عبادت گاہیں، ہوٹل، مالز وغیر ہ کھل رہے ہیں لیکن وہاں جانے کے لیے بعض شرائط پوری کرنی ہوں گی اور صورت حال لاک ڈاون لگنے سے پہلے کی طرح نہیں ہوگی۔
عبادت گاہیں کھل گئیں
عبادت گاہیں کھلنے کے بعد تقریباً ڈھائی ماہ بعد فرزندان توحید مساجد میں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جارہے ہیں۔ حکومت نے عبادت گاہوں کے لیے خصوصی گائیڈ لائنس جاری کی ہیں۔ حالانکہ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ چوتھے لاک ڈاون کے اعلان کے وقت شراب خانوں کو کھولنے کی اجازت دیے جانے سے حکومت کی کافی نکتہ چینی ہورہی تھی اس لیے اسے مجبوراً عبادت گاہوں کو کھولنے کی اجازت دینی پڑی۔
دہلی کی تاریخی شاہی جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ماہرین صحت کے مشورے پر پورا عمل کیا جارہا ہے۔ وضو کے لیے استعمال ہونے والے حوض کو خالی کرا دیا گیا ہے۔ قالینیں اٹھوا لی گئی ہیں اور سوشل ڈسٹنسنگ کے لیے فرش پر اسٹیکر لگادیے گئے ہیں۔ لوگوں سے اپنے گھروں سے وضو کرکے اور جا نماز لے کر آنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی 65 برس سے زیادہ اور 15 برس سے کم کے لوگوں کو مسجد نہ آنے کی اپیل کی گئی ہے۔
جامع مسجد میں عام طور پر ہر نماز میں دوسے ڈھائی ہزار افراد شریک ہوتے ہیں لیکن نئے ضابطوں کے بعد ان کی تعداد پانچ سے سات سو کے قریب ہی رہے گی۔
دہلی کے اسپتال صرف دہلی والوں کے لیے!
دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے اعلان کیا ہے کہ قومی دارالحکومت میں کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے اب دہلی حکومت کے زیر انتظام چلنے والے اسپتالوں اور نجی اسپتالوں میں صرف دہلی کے باشندوں کا ہی علاج کیا جائے گا۔ دہلی حکومت کا کہنا ہے کہ اپنے شہریوں کو پہلے طبی خدمات پہنچانا اس کی ذمہ داری ہے۔ تاہم اروند کیجریوال حکومت کے اس فیصلے کی اپوزیشن جماعتوں نے نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طبی خدمات حاصل کرنا ہر بھارتی شہری کا بنیادی حق ہے اور کسی کو بھی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
متاثرین کی تعداد ڈھائی لاکھ سے متجاوز
بھارت میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد دو لاکھ 58 ہزار 85 ہوچکی ہے۔ وزارت صحت کی طرف سے جاری اعدادوشمار کے مطابق اب تک سات ہزار 207 افراد موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ پچھلے 24 گھنٹوں میں 287 افراد کی موت ہوگئی جبکہ دس ہزار 749 نئے کیسز سامنے آئے جو اب تک ایک دن میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ اتوار کا دن مسلسل دوسرا دن تھا جب ایک دن میں دس ہزار سے زائد نئے کیسز سامنے آئے۔ بھارت کورونا وائرس سے دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں کی فہرست میں امریکا، برازیل، روس اور برطانیہ کے بعد پانچویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔