1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت عدیم المثال اقتصادی بحران کی جانب بڑھتا ہوا

جاوید اختر، نئی دہلی
27 اگست 2020

بھارت کے مرکزی بینک آر بی آئی کی سالانہ رپورٹ میں بھارتی معیشت پر کووڈ  19 کے اثرات کی حقیقی تصویر کی ایک جھلک سامنے آئی ہے جس کے مطابق اقتصادی سرگرمیاں ایسی تنزلی کی طرف جارہی ہیں، جو تاریخ میں عدیم المثال ہے۔

https://p.dw.com/p/3hZqr
Gebäude der Reserve Bank of India
تصویر: Getty Images/AFP/P. Paranjpe

ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کا کہنا ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ بھارتی معیشت کے سکڑنے کے آثار ہیں اور کورونا وبا سے پہلے کی سطح پر دوبارہ پہنچنے میں اسے کافی وقت لگے گا۔

آر بی آئی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کھپت کو جو دھچکا لگا ہے وہ سنگین ہے اورغریب ترین افراد پر اس کی سب سے زیادہ مارپڑی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مئی اور جون میں معیشت نے جو تھوڑی رفتار پکڑی تھی وہ اب ریاستوں کی طرف سے مقامی لاک ڈاون کی وجہ سے ختم ہوگئی ہے اور اقتصادی سرگرمیوں کا سکڑنا آگے بھی جاری رہے گا۔

ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ یوں تو آر بی آئی ابھی بھی پوری حقیقت پیش نہیں کررہی ہے اس کے باوجو اس رپورٹ کو ایک ایماندارانہ  تجزیہ کے قریب کہا جاسکتا ہے۔ معروف ماہر اقتصادیات پروفیسر ارون کمار کہتے ہیں کہ حالات اتنے خراب ہیں کہ اگر ہم ایک انتہائی امید افزا منظر نامہ کو سامنے رکھیں تب بھی اقتصادی ترقی کی شرح منفی 12 فیصد ہونے کا امکان ہے۔  تاہم ان کا خیال ہے کہ حقیقی ترقی کی شرح منفی 37.5 فیصد رہے گی۔

پروفیسر ارون کمار نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”اس کا مطلب یہ ہے کہ معیشت میں 70 لاکھ کروڑ روپے کی کٹوتی ہوگی اور ایف ایم سی جی، فارما اور آئی ٹی سیکٹر کو چھوڑ کر تمام دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری میں کمی آئے گی، کھپت کم ہوگی، حکومت کی آمدنی میں زبردست کمی آئے گی، ملازمتیں ختم ہونے کی وجہ سے انکم ٹیکس سے ہونے والی آمدنی بھی کم ہوجائے گی، کارپوریٹ سیکٹر خسارہ دکھائے گا جس کی وجہ سے کارپوریٹ ٹیکس سے ہونے والی آمدنی بھی بری طرح متاثر ہوگی۔"

Indien Energie | Dorf Langolpota, Ziegelsteine
اقتصادی بحران کی سب سے زیادہ مارغریب ترین افراد پر پڑی ہے۔تصویر: Reuters/S. Roy

پروفیسر کمار کہتے ہیں کہ پورا کا پورا بجٹ ہی بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔ اس لیے حکومت کوچاہیے کہ اپنے خرچ میں بھی تخفیف کرے اور آمدنی اور خرچ کا از سر نو جائزہ لے تاکہ آئندہ کا منصوبہ بنایا جاسکے۔ ان کا اندازہ ہے کہ اس صورت حال کے دو سے تین سال تک سنبھلنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

اقتصادی امور کے ماہر صحافی انشومن تیواری کا بھی یہی خیال ہے کہ حکومت ابھی تک ایک من گھڑت امید افزا ماحول کی تصویر پیش کررہی تھی لیکن معیشت کی حقیقی تصویراب دھیرے دھیرے سامنے آنے لگی ہے اور حکومت کی طرف سے کھڑی کی گئی نقلی عمارت آہستہ آہستہ ٹوٹ رہی ہے۔

انشومن تیواری نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارت اس وقت انتہائی شدید اقتصادی کساد بازاری کی گرفت میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ معیشت پہلے سے ہی سست رفتار تھی اس لیے ہمارے لیے یہ دوہری مار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ بھارت کی معیشت کھپت پر مبنی ہے اس لیے کھپت کو بری طرح دھچکا لگنے سے پوری معیشت ہی لڑکھڑا گئی ہے۔

انشومن کہتے ہیں ”یہ ایک دلچسپ معمہ ہے کہ جب کھپت نہیں ہوگی تو اقتصادی سرگرمیاں نہیں ہونے کی وجہ سے آمدنی بھی نہیں ہوگی اور جب آمدنی ہی نہیں ہوگی تو کھپت کیسے ہوگی؟" ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو کھپت کے لیے حوصلہ افزائی کے خاطر حکومت پیسے نہیں لگا سکتی کیوں کہ حکومت کے پاس بھی اپنا خرچ بڑھانے کی گنجائش نہیں ہے۔ ”یہی وجہ ہے کہ آر بی آئی بھلے ہی دوٹوک الفاظ میں نہیں کہہ رہا ہو لیکن وہ حکومت کو اور عوام کو یہ بتانے کی کوشش کررہی ہے کہ حالات اپنی رفتار سے ہی سدھریں گے، اس صورت حال سے باہر نکلنے میں کافی وقت لگے گا اور اس کے لیے سب کو کمر کسی لینی چاہیے کیونکہ اس صورت حال کو ٹھیک کرنے کے لیے جادو کی کوئی چھڑی موجود نہیں ہے۔“

Indien Haushalt für Haushaltsjahr 2020-21
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ پورا کا پورا بجٹ ہی بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔تصویر: DW/A. Ansari

اس دوران سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے کہا کہ وہ یہ بات 'پوری طرح واضح‘ کرے کہ بینکوں کی طرف سے دیے گئے قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی میں لاک ڈاون کی وجہ سے لوگوں کو جو راحت دی گئی تھی اس پر اضافی سود کے متعلق اس کا موقف کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ’برائے کرم اپنے آپ کو آر بی آئی کی آڑ میں چھپانے کی کوشش نہ کریں۔‘

سپریم کورٹ نے اس معاملے پرسماعت کرتے ہوئے حکومت سے کہا ”ایسا اس لیے ہوا کیوں کہ آپ نے پورے ملک میں لاک ڈاون کردیا تھا۔ لہذا یہ آ پ کو ہی واضح کرنا ہوگا کہ التوا کی گئی قسطوں پر موجودہ کے علاوہ اضافی سود عائد کی جائے یا نہیں۔" دراصل حکومت نے لاک ڈاون کے وقت قرضوں پر ماریٹوریم کی سہولت دی تھی، جس کے تحت لوگوں کو چھ ماہ تک ماہانہ قسطوں کی ادائیگی کو ملتوی کرنے کا متبادل دیا گیا تھا لیکن بینک اب ان پر اضافی سود لینا چاہتے ہیں۔

بھارت:کشمیر کی معیشت بھی کورونا لاک ڈاؤن سے متاثر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید