بھارت: متنازع جہیز قانون نے ایک اور نوجوان کی جان لے لی
12 دسمبر 2024خودکشی کے انتہائی قدم اٹھانے سے قبل اتل سبھاش نامی شخص نے 80 منٹ کی ایک ویڈیو ریکارڈ کی جس میں اس نے اپنی بیوی نکیتا سنگھانیہ اور اس کے اہل خانہ پر الزام لگایا کہ وہ ان سے پیسے اینٹھنے کے لیے اس پر اور اس کے خاندان پر متعدد مقدمات درج کر رہے ہیں۔
سبھاش نے اپنے 24 صفحات پر مشتمل سوسائڈ نوٹ میں نظام انصاف پر تنقید کی اور ایک جج کا بھی نام لیا جو مبینہ طور پر اس سازش میں ملوث ہیں۔ سبھاش نے لکھا ہے کہ اس کے پاس اب اپنی جان لینے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں بچا تھا۔
بھارتی عدالت نے بیوی کی زیادتی کا شکار شوہر کو سکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا
اتل سبھاش کی خودکشی نے بھارت میں جہیز کے قانون کے غلط استعمال پر ایک بار پھر بحث چھیڑ دی ہے۔
بحث کا مرکز ایک خصوصی قانون، بی این ایس کی دفعہ 498 اے ہے، جس کا استعمال کسی خاتون کے خلاف اس کے شوہر یا اس کے اہل خانہ کی طرف سے کی جانے والی زیادتی کے معاملات میں استعمال کیا جاتا ہے۔
دفعہ 498 اے کیا ہے؟
اس دفعہ کے تحت "ظلم" سے مراد کوئی ایسا رویہ ہے جو عورت کو شدید ذہنی یا جسمانی چوٹ پہنچاتا ہو یا اس کی زندگی کو خطرے میں ڈالتا ہو یا خودکشی کا باعث بنتا ہو۔
کسی جائیداد یا قیمتی سامان کے غیر قانونی مطالبات کو پورا کرنے میں ناکامی پر کسی عورت یا اس کے کسی رشتہ دار کو ہراساں کرنا بھی ظلم کے دائرے میں لایا گیا ہے۔
گھر بنانے کے لیے سسرال سے پیسے مانگنا بھی جہیز، بھارتی عدالت
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، سال 2022 میں اس کے تحت 1,40,019 مقدمات درج کیے گئے، جو خواتین کے خلاف درج ہونے والے کل جرائم کا 30 فیصد سے زیادہ ہے۔
خواتین کے حقوق کے علمبردار گروپوں کا خیال ہے کہ یہ وہ معاملات ہیں جن میں خواتین آگے آنے اور پولیس سے شکایت کرنے کی ہمت پیدا کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ جب کہ ایسی خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر پولیس کے پاس جانے سے قاصر ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دفعہ 498 اے ابھی تک اپنا مقصد پوری طرح پورا نہیں کر سکا۔ دوسری طرف اس کا غلط استعمال ایک اور چیلنج بن گیا ہے۔
ماہرین قانون کیا کہتے ہیں؟
وکیل اور خواتین کے تحفظ کے قوانین کی ماہر این ودیا کا کہنا ہے کہ دفعہ 498 اے کا اس قدر غلط استعمال کیا جا رہا ہے کہ یہ اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ "اس کا زیادہ تر غلط استعمال شہروں میں پڑھی لکھی خواتین کر رہی ہیں، جب کہ دیہی علاقوں یا یہاں تک کہ شہری علاقوں میں، کم تعلیم یافتہ خواتین کو اب بھی ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور وہ شکایت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔"
بھارت: لاوارث دلہنیں انصاف کے لیے لڑتی ہوئیں
بنگلورو میں قائم ودھی سینٹر فار لیگل پالیسی کے شریک بانی آلوک پرسنا، دفعہ 498 اے کے غلط استعمال کے بارے میں، کہتے ہیں کہ بھارت میں تقریباً تمام فوجداری قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شہریوں کو پولیس سے بچانے کے بجائے ہمارا نظام شہریوں سے پولیس کی حفاظت کرتا ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، دوسرے قوانین کے مقابلے میں دفعہ 498 اے اپنی طرف زیادہ توجہ مبذول کرتا ہے کیونکہ اس کے متاثرین متوسط طبقے کے ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا پر انہیں کافی پذیرائی مل جاتی ہے۔
دہلی میں مقیم ایک سینئر ایڈوکیٹ وکاس پاہوا کا کہنا تھا کہ دفعہ 498 اے کے ممکنہ غلط استعمال کو مدنظر رکھا جانا چاہئے اور قانونی عمل کی اصلاح پر زور دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ یہ دفعہ "چند خواتین" کے لیے پیسے بٹورنے کا آلہ بن گیا ہے۔
سپریم کورٹ کی تازہ ہدایات
اتل سبھاش کی خودکشی کے بارے میں جاری بحث کے درمیان، سپریم کورٹ نے گیارہ دسمبر کو ایک اور کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ بیوی کو شوہر سے ناجائز مطالبات ماننے پر مجبور کرنے کے لیے اس قانون کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔
جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس پی وی ورالے کی بنچ نے طلاق کے ایک دیگر کیس میں گزارا بھتہ کی رقم کا تعین کرتے ہوئے ملک بھر کی تمام عدالتوں کو مشورہ دیا کہ وہ اس طرح کے کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کچھ اہم نکات کو مدنظر رکھیں۔
بھارت: جہیز کے لیے تشدد سے تنگ آکر تین بہنوں کی اجتماعی خودکشی
سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں آٹھ نکات کا ذکر کیا۔ ان میں میاں بیوی کی سماجی اور معاشی حیثیت، مستقبل میں بیوی اور بچوں کی بنیادی ضروریات، دونوں فریق کی اہلیت اور ملازمت، آمدنی کے ذرائع اور جائیداد، سسرال میں رہتے ہوئے بیوی کا معیار زندگی، کیا بیوی نے خاندان کی دیکھ بھال کے لیے اپنی نوکری چھوڑ دی ہے؟، کام نہ کرنے والی بیوی کے لیے قانونی جنگ کے لیے معقول رقم، اور دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ کفالت کی صورت میں شوہر کی مالی حیثیت کیا ہوگی شامل ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے تاہم کہا کہ یہ عوامل کوئی فارمولہ نہیں بلکہ رہنما خطوط ہیں۔ اور"یہ یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ مستقل طور پر گزارا بھتہ کی رقم شوہر پر جرمانہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ بیوی کے لیے اچھے معیار زندگی کو یقینی بنانے کے مقصد سے لیا جانا چاہیے۔"
جذباتی خودکشی نامہ
اتل سبھاش نے الزام لگایا ہے کہ ان کی بیوی کا خاندان بار بار کئی لاکھ رقم کا مطالبہ کرتا تھا۔ جب اس نے مزید رقم دینے سے انکار کر دیا تو اس کی بیوی 2021 میں اپنے بیٹے کے ساتھ بنگلورو گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ اتل اور نکیتا ایک میچ میکنگ ویب سائٹ پر ملے تھے اور 2019 میں شادی کی۔ اگلے سال یہ جوڑا ایک بیٹے کے والدین بن گیا۔
سبھاش کے بھائی نے میڈیا کو بتایا کہ نکیتا کے خاندان نے شروع میں ماہانہ 40،000 روپے کا مطالبہ کیا، جسے بعد میں دوگنا کر دیا۔ آخرکار انہوں نے ایک لاکھ روپے مانگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی اہلیہ اور اس کے خاندان نے کیس کو واپس لینے کے لیے پہلے ایک کروڑ روپے کا مطالبہ کیا لیکن بعد میں اسے بڑھا کر تین کروڑ کر دیا۔
ریپ کا مطلب ریپ، خواہ شوہر ہی کیوں نہ کرے، بھارتی عدالت
بیٹے کے نام اپنے آخری خط میں، جو اب وائرل ہو چکا ہے، اتل نے دعویٰ کیا کہ وہ یہ تک نہیں جانتے تھے کہ ان کا بیٹا کیسا لگتا ہے کیونکہ انہوں نے اسے آخری بار اس وقت دیکھا تھا جب وہ ایک سال کا تھا۔
اتل نے لکھا ہے، "بیٹا جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا تو میں نے سوچا تھا کہ میں تمہارے لیے اپنی جان بھی دے سکتا ہوں۔ لیکن افسوس کہ میں آپ کی وجہ سے اپنی جان دے رہا ہوں۔ مجھے اب آپ کا چہرہ بھی یاد نہیں جب تک کہ میں آپ کی تصویریں نہ دیکھوں۔"
اتل نے اپنے بیٹے کو لکھا، "جب تک میں زندہ ہوں اور پیسے کما رہا ہوں، وہ آپ کو آپ کے دادا دادی، چچا اور مجھے ہراساں کرنے کے لیے، مجھ سے مزید پیسے بٹورنے کے لیے استعمال کرتے رہیں گے۔ میں اپنے والد، والدہ اور بھائی پر یہ سب غیر ضروری بوجھ نہیں ڈال سکتا۔ آپ کے لیے بھی نہیں۔ میں اپنے باپ پر تیرے جیسے سو بیٹے قربان کر دوں گا۔ میں آپ کے لیے ایک ہزار قربان کر دوں گا، لیکن میں اپنے والد کے دکھ کا سبب نہیں بنوں گا۔"
اپنے خودکشی نوٹ میں، اتل سبھاش نے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے 24 صفحات کے نوٹ کے ہر ایک صفحے پر لکھا کہ "انصاف واجب الادا ہے"۔
اتل کے بھائی کا کہنا ہے کہ،"میں اپنے بھائی کے لیے انصاف چاہتا ہوں۔ مردوں کے لیے بھی قانون بنائے جائیں کیونکہ وہ بھی ہراساں ہوتے ہیں۔ حکومت ہند کو یہ بات سمجھنی چاہیے۔ ایک مرد کی زندگی اتنی ہی اہم ہے جتنی ایک عورت کی۔"