بھارت ممبئی حملوں کے مقدمے میں تعاون کرے، پاکستان
5 ستمبر 2010پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک نے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا، ’سماعت تعطل کا شکار ہے، دراصل ہم بین الاقوامی برادری کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ اس میں تاخیر برتی جاری ہے۔‘
رحمان ملک نے اپنے بھارتی ہم منصب پی چدمبرم سے فون پر بات بھی کی، جس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’مسٹر چدمبرم سے بات کرتے ہوئے ہم نے بھارت کو تجویز پیش کی ہے کہ کیوں نہ ہم اپنا مقدمہ اپنے ٹرائل کورٹ میں پیش کر دیں اور ان سے متعلقہ حکام کا ایک کمیشن قائم کرنے کی درخواست کریں، جو گواہوں کے بیان ریکارڈ کرے۔‘‘
رحمان ملک نے بتایا کہ پی چدمبرم نے اس تجویز پر غور کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
پاکستان میں جن ملزمان کو عدالتی کارروائی کا سامنا ہے، ان میں ممبئی حملوں کا مبینہ ماسٹر مائنڈ ذکی الرحمان لکھوی اور کالعدم عسکری جماعت لشکر طیبہ کا زرار شاہ بھی شامل ہے۔
اس دہشت گردانہ کارروائی میں حصہ لینے والوں میں سے زندہ بچ جانے والا اجمل قصاب اور ان حملوں میں تعاون کرنے والا بھارتی شہری فہیم انصاری قید ہیں۔ قصاب کے لئے ایک بھارتی عدالت سزائے موت کا فیصلہ سنا چکی ہے۔ اس کے خلاف یہ فیصلہ قتل اور بھارت پر جنگ مسلط کرنے سمیت دیگر الزامات پر رواں برس 31 مارچ کو سنایا گیا۔
نئی دہلی حکومت نے پاکستان کو قصاب اور انصاری تک عدالتی رسائی دینے سے انکار کر دیا تھا، جس کے باعث پاکستان میں جاری عدالتی کارروائی بھی تعطل کا شکار ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں ممبئی حملوں کا ایک سال مکمل ہونے پر اسلام آباد سے ملحقہ شہر راولپنڈی میں انسدادی دہشت گردی کی ایک عدالت نے سات ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی۔ تاہم پاکستانی حکام نے تب ہی کہہ دیا تھا کہ قصاب کو گواہ کے طور پر ان کے حوالے کئے جانے تک سماعت آگے نہیں بڑھ سکتی۔
بھارت اور امریکہ نے ان حملوں کے لئے پاکستان سے تعلق رکھنے والی شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اس دہشت گردانہ کارروائی میں کم از کم 166 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان حملوں کے باعث پاکستان اور بھارت کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تھے جبکہ دونوں ممالک کے درمیان جاری امن عمل بھی رک گیا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف توقیر