بھارت، مہنگے طلائی زیورات کے خریدار پریشان
27 دسمبر 2013آج کل بازاروں میں زیورات کی خریداری کرنے والوں کی ریل پیل نظر آ رہی ہے۔ دنیا میں کسی دوسرے معاشرے میں شادی کے وقت دلہن سونے کے زیورات سے اس طرح لدی نہیں ہوتی، جس طرح کہ بھارت میں۔ بھارتی معاشرے میں لڑکیوں کی شادی ایک اہم مسئلہ ہے، جس میں جہیز کا بڑا عمل دخل ہے۔ لڑکیوں کو جہیز کے ساتھ بھی زیورات دیے جاتے ہیں۔ جو والدین اتنی استطاعت رکھتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں طلائی زیورات سے لیس دلہنیں نظر آئیں، وہ انہیں زیادہ سے زیادہ زیور دینے کی کوشش کرتے ہیں۔تاہم ان دنوں بہت فراخ دلانہ بجٹ بھی دلہنوں کے لیے بیش قیمت زیورات کی خریداری کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
رجنی کانت مہتا دارالحکومت نئی دہلی کے باہر قائم ایک کارخانے کے مالک ہیں۔ انہوں نے ایک لاکھ بھارتی روپے یا اٹھارہ سو ڈالر کی قیمت کا ایک گلو بند اپنی ہونے والی بہو کے لیے خریدنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اب انہیں اس بات پر شدید غصہ ہے کہ اس قیمت میں انہیں ویسا گلوبند نہیں مل رہا، جیسا کہ وہ چاہ رہے تھے۔
بھارت اپنی ضروریات کا تقریباً تمام سونا درآمد کرتا ہے۔ اب اس ملک میں سونے کی قیمتیں گزشتہ تین برسوں کے مقابلے میں 50 فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔ ان دنوں ایک اونس سونے کی قیمت 87 ہزار روپے یا 14 سو ڈالر ہے۔
مہتا سونے کی مہنگائی کا شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں،"سونے کی قیمت کم ہونی چاہیے۔ یہ گلوبل ورلڈ کا دور ہے۔ اگر ہمارے ہاں بھی سونے کی قیمتیں اتنی ہی ہوں گی، جتنی کہ دیگر ممالک میں، تو ملک کے اندر سونے کی خرید میں اضافہ ہو گا۔"
تاہم زیادہ سونا خریدنے کا رجحان حکومتی پالیسی کے بر خلاف ہے۔ حکومت نہیں چاہتی کہ عوام زیادہ سونا خریدیں۔ اس رجحان کو کم کرنے کی غرض سے نئی دہلی حکومت نے اس سال سونے کی درآمدی ڈیوٹی میں تین گنا اضافہ کیا ہے۔ اس طرح سونے کی ڈلیوں پر درآمدی ڈیوٹی کو دو فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کردیا گیا ہے۔ اس طرح سونے کے زیورات پر درآمدی ڈیوٹی میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
تیل کے بعد سونا بھارت کی درآمدات میں دوسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت میں اقتصادی ترقی اور آمدنی میں اضافے کے سبب بھارتی صارفین میں سونے کی خریداری کی ایک لہر سی دوڑ گئی ہے تاہم اس قیمتی دھات کی زیادہ سے زیادہ خرید ملکی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ کیونکہ اس طرح بھارت سے غیر ممالک میں جانے والا زر مبادلہ، ملک کے اندر آنے والے غیر ملکی زر مبادلہ سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے سبب رواں سال مارچ میں اختتام پذیر ہونے والے مالی سال کے دوران بھارت کو خام ملکی پیداوار میں 4.8 فیصد کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا، جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔