بھارت میں ایڈز کے خلاف اب مذہبی رہنما میدان میں
18 جنوری 2011اس ورکشاپ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ہندوؤں، سکھوں، پارسیوں، بودھ پرستوں اور عیسائیوں کے علاوہ مسلمانوں کے تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما بھی موجود تھے۔ انہوں نے اس بات کو شدت سے محسوس اور اس کا اظہار کیا کہ ایچ آئی وی ایڈز سے نہ صرف لوگ انفرادی طور پر متاثر ہورہے ہیں بلکہ خاندان اور سماج بھی بکھر رہا ہے لہذا علمائے دین اور مذہبی رہنماؤں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ انہیں اس مہلک بیماری کے خلاف صف آرا ہونا چاہیے اور اس کلنک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی مہم میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔
اس ورکشاپ کے کنوینر اور نئی دہلی کی سنٹرل یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ پروفیسر اختر الواسع نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”علماءکرام اور مفتیان شرع متین نے اس ہلاکت خیز لعنت کو مٹانے کے لئے اپنی خدمات دینے اور عوام کو اس کے بارے میں آگاہ کرنے کے لئے جس وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا وہ میرے لیے ناقابل یقین تھا۔“ انہوں نے کہا کہ مسلم علماءکرام اس لعنت کے مضمرات سے پوری طرح واقف ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس لعنت کے خلاف سرکاری مہم میں تعاون دینا سماج کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
پروفیسر اختر الواسع کا کہنا ہے کہ اگر اسلام کی واضح تعلیمات کے مطابق جنسی عمل کو اگر صرف اپنی بیوی تک محدود رکھا جائے تو ایچ آئی وی ایڈز پر بڑی حد تک روک لگ سکتی ہے۔
جب ہم نے پروفیسر اخترالواسع سے پوچھا کہ ایڈز کی روک تھام کے لئے مذہبی رہنماوں کی خدمات حاصل کرنے کے پیچھے کون سی وجوہات کار فرما ہیں تو انہوں نے کہا کہ برصغیر کے اربوں لوگوں میں مذہبی رہنماؤں اور مذہبی امور سے وابستہ افراد کو بڑی قدر و احترام اور عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں جہاں مساجد، درگاہیں، خانقاہیں، مندر اور گرجا گھر علم و معرفت کے مراکز ہیں وہیں تہذیبی روایات کے امین بھی ہیں۔ اس کے علاوہ اس خطے کے نوجوان مذہبی اقدار پر گہرا یقین رکھتے ہیں، مذہبی رہنماؤں کا احترام کرتے ہیں اور ان سے رہنمائی کی توقع رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رضاکارانہ مذہبی کوششیں دیرپا اور مستحکم ہوتی ہیں اس کی ایک واضح مثال بھارت میں انسداد پولیو مہم ہے۔ جس میں تمام مذہبی رہنماؤں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور یہ بیماری اب تقریباﹰَ ختم ہونے والی ہے۔
پروفیسر اخترالواسع کا کہنا ہے کہ1986میں بھارت میں دستک دینے والے اس مرض نے صرف 25 برسوں میں ہی ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت محتاط سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گوکہ23 لاکھ سے زائد افراد اس مہلک مرض کا شکار ہیں لیکن اس کے اثرات ایک کروڑ سے بھی زیادہ لوگوں کی زندگیوں پڑ رہے ہیں۔
رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی