بھارت میں نامعلوم بیماری کے سبب 51 ہلاکتیں
28 اکتوبر 2010تاہم طبی ماہرین اور حکام نے بتایا ہے کہ یہ مبینہ وائرس زیادہ تر بچوں اور معمر افراد پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ اس کی علامات کے بارے میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کے شکار افراد کو تیز بخار، قے اور سر کا شدید درد ہوتا ہے اور اسی کیفیت میں حالت بہت زیادہ خراب ہونے سے ایسے مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش کے ایک اعلیٰ میڈیکل آفیسر ایس پی رام نے کہا: ’’ہم اب تک اس وائرس کی شناخت میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یہ بہت سے انسانوں کی جان لے چکا ہے۔ یہ ڈینگی بخار یا ملیریا کے وائرس کی تبدیل شدہ شکل ہو سکتی ہے۔ لیکن ہم اس بارے میں ابھی بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ مائیکرو بیالوجی کے ماہرین اس پراسرار بیماری کی اصل وجوہات کی کھوج میں ہیں۔‘‘
ادھر ریاستی دارالحکومت لکھنؤ میں ایک حکومتی اہلکار منیش مشرا نے بتایا کہ اس وائرس کے ہاتھوں 51 افراد کی ہلاکت کے علاوہ اب تک کم از کم 340 افراد ایسے بھی ہیں جو شدید بیمار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان مریضوں کے خون کے نمونے معائنے کے لئے نئی دہلی میں قائم متعدی بیماریوں سے متعلق تحقیق کے قومی ادارے کو بھجوائے جا چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے بھارت میں ملیریا کے عارضے کے پھیلاؤ کے بارے میں منظر عام پر آنے والی ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بھارت میں ہر سال ملیریا کا شکار ہو کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب تک کے اندازوں سے کم از کم 13 گنا زیادہ ہے۔ اس بارے میں عالمی ادارہء صحت کی طرف سے لگائے جانے والے اندازوں میں ملیریا کے محض وہ واقعات شامل کئے گئے، جن کا ہسپتالوں میں اندراج کیا گیا تھا۔ ملیریا کے شکار افراد کے بارے میں کروائے گئے ایک حالیہ سروے کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ بھارت کے طول و عرض میں ہر سال 15 ہزار کی بجائے ایک لاکھ 25 ہزار تک افراد ملیریا کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ WHO کے ملیریا پروگرام کے ڈائریکٹر رابرٹ نیومین نے بھارت میں ملیریا کے واقعات کے بارے میں جمع کردہ اعداد و شمار کے طریقہء کار پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے ناقص قرار دیا تھا۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک