بھارت میں نیوکلیائی جوابدہی بل مؤخر
15 مارچ 2010'Civil Liability for Nuclear Damage' نامی یہ بل بھارت امریکہ سویلین نیوکلیائی معاہدہ 2006ء کا حصہ ہے۔اور اس معاہدے کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لئے اس بل کو منظور کیا جانا ضروری ہے۔ اعلی ذرائع کے مطابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ چاہتے ہیں کہ اپریل میں امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے طلب کردہ نیوکلیائی ملکوں کی میٹنگ میں شرکت سے قبل اس بل کو بھارتی پارلیمان میں پیش کردیں۔ لیکن اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی اور بائیں بازو کی جماعتوں نے اس کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے آئین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی قرار دیا۔ اپوزیشن اور سول سوسائٹی گروپوں کی ناراضگی کی مد نظر حکومت نے فی الحال اس بل کو پیش کرنے کا منصوبہ ترک کردیا ہے۔
حکمراں کانگریس پارٹی کے اعلٰی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے بھی وزیر اعظم کو مشور ہ دیا کہ وہ جلد بازی سے کام نہ لیں کیوں کہ ایوان بالا میں خواتین ریزرویشن بل کو پیش کرنے میں اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کی طرف سے جو ہمدردی حاصل ہوئی ہے وہ ختم ہوسکتی ہے اورایسی صورت میں مالیاتی بل کو منظور کرانا مشکل ہوجا ئے گا۔
آخر اس بل کے حوالے سے سول سوسائٹی گروپوں کے کیا تحفظات اور اعتراضات ہیں۔گرین پیس کی چیف کمپینر کرونا رینا کہتی ہیں، "اس بل میں حادثے کی صورت میں معاوضہ کی رقم 200 کروڑ روپے رکھی گئی ہے جب کہ معاوضے کی زیادہ سے زیادہ رقم 2000 کروڑ روپے ہے جو بہت ہی کم ہے ۔ اتنی رقم تو 25 سال قبل بھوپال گیس سانحہ میں دی گئی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ بل میں معاوضہ کی رقم اد ا کرنے کی ذمہ داری سپلائر کے بجائے آپریٹر پر ڈالی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خود ہمارے ٹیکس کے پیسوں کے ذریعہ ہی معاوضہ ادا کیا جائے گا۔"
اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ یہ بل امریکہ کے دباؤ پر لایا جارہا ہے۔ کیوں کہ امریکہ کی دو بڑی کمپنیا ں جنرل الیکٹرک کمپنی اور وارنگٹن ہاؤس بھارت میں نیوکلیئر ری ایکٹر میں سرمایہ کاری کرنے والی ہیں۔اور اس بل سے ان کمپینوں کو فائدہ ہوگا۔کرونا رینا کہتی ہیں کہ روسی کمپنیوں کے برخلاف امریکی کمپنیوں پر ان کی حکومت کی طرف سے کوئی قانونی گرفت نہیں ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا امریکی کمپنیاں پرائیوٹ کمپنیاں ہوتی ہے او ر وہ حکومت کو جوابدہ نہیں ہوتیں، جب کہ روسی اور فرانسیسی کمپنیاں سرکاری کمپنیاں ہوتی ہے اور ان کی حکومتیں جوابدہ ہوتی ہیں۔ اس لئے اس بل سے صرف اور صرف امریکی کمپنیوں کو ہی فائدہ ہوگا۔
تاہم معروف بھارتی تھنک ٹینک 'انسٹیٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انالسس' میں فیلو اور نیوکلیائی ایکسپرٹ اور نیشنل میری ٹائم فاؤنڈیشن سے وابستہ ڈاکٹر جی بالاچندرن کا کہنا ہے کہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے کہ یہ بل امریکی دباؤ کے باعث لایا جارہا ہے ۔
ڈاکٹر بالا چندرن کا کہنا ہے کہ دنیا میں اس وقت مجموعی طور پر 436 نیوکلیائی ری ایکٹر رکھنے والے 30 میں سے 28 ملکوں میں اس طرح کا قانون کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے اور صرف بھارت اور پاکستا ن ہی دو ایسے ملک ہیں جہاں نیوکلیائی جوابدہی کا قانون موجود نہیں ہے۔ واضح رہے کہ بھارت میں 18 اور پاکستان میں دو نیوکلیائی پاور پلانٹ ہیں۔ ڈاکٹر بالا چندرن کا کہنا ہے کہ کیا دنیا کے 28 ممالک بے وقوف ہیں جو انہوں نے اس طرح کے قوانین پر دستخط کئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ کئی ممالک بھارت کے ساتھ نیوکلیائی معاہدے کرنا چاہتے ہیں اور یہاں جوہری توانائی میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں اس لئے اس طرح کا قانون لانا ضروری ہے۔
تاہم بل کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اٹامک انرجی کمیشن ایکٹ کے تحت بھارت میں نیوکلیائی شعبہ میں پرائیویٹ سرمایہ کاری کی اجازت نہیں ہے اس لئے کسی حادثے کی صورت میں جوابدہی پوری طرح حکومت کے ذمہ ہوگی۔
صنعت کاروں او رمختلف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ نیوکلیائی شعبہ میں نجی سرمایہ کاری کی اجازت دی جائے۔ یاد رہے کہ چند سال قبل دفاعی شعبہ میں ایک حد تک نجی سرمایہ کی اجازت دی جاچکی ہے۔
رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی
ادارت : افسر اعوان