1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی وزیر اعظم کے دورہء بھارت کے دوران اہم معاہدے

12 مارچ 2010

روس کے وزیر اعظم ولادیمیر پوٹن نے بھارت کے 22 گھنٹوں کے دورے کے دوران اپنے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر من موہن سنگھ سمیت متعدد رہنماوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لئے متعدد معاہدوں پردستخط کئے۔

https://p.dw.com/p/MRYf
تصویر: AP

روسی وزیر اعظم ولادیمیر پوٹن سرد جنگ دور کے اپنے بڑے حلیف بھارت کے ساتھ تعلقات اور باہمی تجارت کو مستحکم کرنے کےلئے کروڑوں ڈالرکے ہتھیاروں کے سودے اور دس ارب ڈالر کے ایک درجن سے زائد معاہدوں پر دستخط کئے۔ان میں بھارت میں مزید نیوکلیائی پاور پلانٹ کی تعمیر کا معاہدہ شامل ہے۔ جب کہ روس چار نےوکلیائی پاور پلانٹ تعمیر کرنے کا معاہدہ پہلے ہی کر چکا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس وقت آٹھ بلین ڈالر کی تجارت ہوتی ہے اور روس 2015 تک اسے بڑھا کر بیس بلین ڈالر تک لے جانا چاہتا ہے۔تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ کئی برسوں کی سرد مہری کے بعد دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات ایک بار پھر بلندی کی طرف گامزن ہیں۔

Dmitri Medwedew bei Indien Premierminister Manmohan Singh.jpg
روسی صدر دمیتری میدویدیف 2008ء میں بھارت کے دورے پر گئے تھےتصویر: AP

مشہور تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفینس اسٹڈیز اینڈ انالسس میں روسی امور کی ماہر ڈاکٹر مینا سنگھ رائے نے ڈوئچے وےلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ” روس اور بھارت کے تعلقات ایک بار پھر اوپر کی طرف جارہے ہیں ‘ بھارتی وزیر اعظم کے گذشتہ سال دورہ ماسکو اور مختلف اعلی سطحی وفود کے دوروں سے بھی یہ بات واضح ہوکر سامنے آگئی ہے اور امید ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات ایک بار پھر اسی سطح پر آجائیں گے جہاں کبھی ہوا کرتے تھے“۔تاہم انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ابھی بھی کئی امور حل طلب ہیں۔

سرد جنگ کے زمانے میں سوویت یونین ہی بھارت کو سب سے زیادہ ہتھیار اور دفاعی ساز و سامان فراہم کرتا تھا لیکن حالیہ برسوں میں بھارت نے امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ بھی اہم معاہد ےکئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روسی ساخت کے مِگ جنگی طیاروں کے مسلسل حادثات کا شکار ہونے نیز طیارہ بردار جنگی جہاز گورشکوف کی قیمت کے معاملے پردونوں ملکوں کے درمیان تنازع کے بعد اب بھارت کو روس پر انحصار نہیں کرنا چاہئے۔ تاہم ڈاکٹر مینا سنگھ رائے کا خیال ہے بھارت کا 80 فیصد دفاعی ساز و سامان روسی ساخت کا ہی ہے اس لئے اس انحصار کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے تاہم کہا کہ سوویت یونین اور بھارت کے تعلقات کا روس اور بھارت تعلقات سے موازنہ کرنا درست نہےں ہوگا۔ہمیں ان تعلقات کو نئے حالات کے پس منظر میں دیکھنا ہوگا اور جہاں تک دفاعی ساز و سامان کی خریداری کی بات ہے تو بھارت اب عالمی سطح پر خریداری کررہا ہے اور یہ ایک لحاظ سے کمرشیل ڈیل ہے۔

Wladimir Putin in Indien
ولادیمیر پوٹن صدر کی حیثیت سے کئی مرتبہ بھارت کا دورہ کر چکے ہیں لیکن بطور وزیر اعظم یہ بھارت کا ان کا پہلا دورہ ہےتصویر: AP

افغانستان میں بھارتی مفادات پر ہونے والے حملوں کے بعد نئی دہلی روس اور ایران کے ساتھ مل کر ایک مثلث قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرسکے لیکن یہاں ایک سینئیر روسی سفارت کار نے کہا کہ چونکہ روس افغانستان میں اپنا ہاتھ جلا چکا ہے اس لئے وہ چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پینا چاہتا ہے۔ روسی امور کی ماہر ڈاکٹر مینا سنگھ رائے کا خیال ہے حالانکہ افغانستان کے حوالے سے دونوں ملکوں کے موقف میں کافی یکسانیت ہے تاہم روس ایران اوربھارت کے درمیان محاذ کا امکان فی الحال نظر نہیں آتا ہے ۔ انہوں نے کہا ”اس طرح کا اتحاد تو شاید ممکن نہیں ہوسکے گا البتہ بھارت او رروس کے درمیان تعاون کی سطح کافی بلند رہے گی کیوں کہ دونوں کے حالات مےں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے۔

دریں اثناء یہاں حکمراں متحدہ ترقی پسند اتحاد کی ایک اہم حلیف ترنمول کانگریس نے وارننگ دی ہے کہ وہ مغربی بنگال کے ہری پور میں نیوکلیائی پاور پلانٹ کی تعمیر کی زبردست مخالفت کرے گی۔ ہری پور سے ترنمول کانگریس کے ممبر پارلیمان سبندھو ادھیکاری نے کہا کہ اگر ہری پور میں نیوکلیائی پاور پلانٹ قائم کیا گیا تو حکومت کو نندی گرام جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

رپورٹ: افتخار گیلانی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں