بھارت میں گردواروں نے بھی نمازِ جمعہ کے لیے دروازے کھول دیے
18 نومبر 2021ملکی دارالحکومت دہلی کے نواح میں واقع ہریانہ کا گروگرام گزشتہ کئی ہفتوں سے فرقہ وارانہ کشیدگی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ وہاں متعدد ملٹی نیشنل اور قومی کمپنیوں بالخصوص انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ اداروں کے دفاتر اور پیداواری یونٹ واقع ہیں۔ مساجد کی کمی کی وجہ سے مسلمان مقامی انتظامیہ کی اجازت سے سرکاری ملکیت والے میدانوں میں جمعے کی نماز پڑھتے ہیں۔ لیکن ستمبر کے مہینے سے بعض مقامی اور غیر مقامی شدت پسند ہندو تنظیموں نے اس کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کر رکھی ہے۔
’کسی صورت میں نماز نہیں ہونے دیں گے‘
انتظامیہ کی طرف سے اجازت یافتہ مقامات پر مسلمان جب نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، تو شدت پسند ہندو تنظیموں کے کارکن مسلمانوں کی عبادت میں خلل ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس دوران جے شری رام کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں اور تقریریں کرنے کے علاوہ ڈھول بھی نجائے جاتے ہیں۔
انتظامیہ نے مقامی مسلمانوں کو پہلے 38 کھلے مقامات پر نماز جمعہ کی اجازت دے رکھی تھی لیکن ہندو تنظیموں کے اعتراضات اور احتجاج کے بعد ان میں سے آٹھ مقامات پر نماز کی ادائیگی روک دی گئی۔ لیکن مظاہرین کا کہنا ہے کہ میدانوں اور پارکوں میں نماز جمعہ پڑھے جانے پرمکمل پابندی عائد ہونے تک وہ احتجاج جاری رکھیں گے۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے اس طرح نماز پڑھے جانے کو روکنے کے لیے 'کوئی بھی قدم اٹھانے‘ کا اعلان بھی کر دیا تھا۔
دو ہفتے قبل ان ہندو تنظیموں نے نماز کی جگہ پر 'گوردھن پوجا‘ کی تھی۔ اس میں گائے کے گوبر کی پوجا کی جاتی ہے۔ اس موقع پر بی جے پی کے رہنما کپل مشرا بھی موجود تھے، جن پر دہلی کے فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ پچھلے ہفتے جمعہ سے ایک روز قبل نماز کی جگہ پر گوبر کے اپلے پھیلا دیے گئے تھے اور پھر وہاں ایک والی بال کورٹ بنانے کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔
’پاسباں مل گئے‘
مسلمانوں کی اس پریشانی کو دیکھتے ہوئے گزشہ ہفتے ایک مقامی ہندو تاجر اکشے یادو نے مسلمانوں کو اپنے گھر کی چھت پر اور دکان میں نماز پڑھ لینے کی پیش کش کی تھی۔
یادو کا کہنا تھا، ''میں اپنی نجی ملکیت والی زمین پر نماز پڑھنے کی اجازت دے رہا ہوں۔ س پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ میں یہ کام کرتا رہوں گا۔ ہندوؤں اور مسلمانو ں کے مابین کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مجھ سے جو کچھ بھی بن پڑے گا، مجھے وہ کرتے ہوئے خوشی ہو گی۔‘‘
40 سالہ یادو کا مزید کہنا تھا کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے ماحول میں پلے بڑھے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان کے بچے نفرت کے ماحول میں پروان چڑھیں۔
یادو کی اس پیش کش کا مسلمانوں نے خیر مقدم کرتے ہوئے گزشتہ جمعے کو ان کی ایک خالی پڑی ہوئی دکان میں نماز ادا کی تھی۔
سکھوں کی جانب سے پیش کش
بدھ کے روز سکھوں کی مقامی تنظیموں نے بھی مسلمانوں کو گردواروں میں نماز جمعہ ادا کرنے کی پیش کش کر دی۔ گردوارہ شری گرو سنگھ سبھا کے صدر شیردل سنگھ سدھو نے کہا، ''جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں ہم خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے۔‘‘
سدھو کا کہنا تھا، ''انتظامیہ نے مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے لیے جگہ دی۔ لیکن اب انہیں وہاں نماز پڑھنے نہیں دی جا رہی۔ یہ دیکھ کر ہمیں غصہ بھی ہے اور تکلیف بھی۔ یہ رویہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا، ''گردواروں کے دروازے نماز پڑھنے کے لیے کھلے رہیں گے۔‘‘
مسلمانوں کی طرف سے اظہار تشکر
مسلمانوں نے ایک ہندو اور پھر سکھوں کی جانب سے کی گئی ان پیش کشوں کا خیر مقدم کیا ہے۔
کشیدگی کے پیش نظر قائم کردہ مقامی امن کمیٹی 'گروگرام ناگرک ایکتا منچ‘ کے شریک بانی الطاف احمد نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''یہ بھارت کی مشترکہ ثقافت کی حقیقی مثال ہے۔ مسلمان اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے لیے بھارت مشہور ہے۔‘‘
مقامی مسلم رہنما مفتی محمد سلیم کا کہناتھا، ''اس سے ہمیں نہ صرف عبادت کے لیے ایک جگہ مل گئی ہے بلکہ یہ نفرت کے خلاف ایک واضح آواز بھی ہے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں جہاں بعض انتہا پسند تنظیمیں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین تفریق کی خلیج کو گہرا کر دینے کی باقاعدہ منصوبہ بندی سے کوششیں کر رہی ہیں، وہیں ہندو اور سکھوں کی جانب سے خیر سگالی کے ایسے اقدامات سے شدت پسندوں کے منصوبے ناکام بنانے میں مدد ملے گی۔