بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں فوج بلا لی گئی
7 جولائی 2010اس کا پس منظر اس منقسم ریاست میں حالیہ مظاہروں کے دوران ہونے والی وہ ہلاکتیں ہیں جن میں کل منگل کے روز چار کا اضافہ ہو گیا تھا۔ سری نگر میں حکام نے بتایا کہ فوج کو ریاستی حکومت کی درخواست پر امن عامہ کو یقینی بنانے کے لئے بلایا گیا ہے اور مسلح دستے کسی بھی طرح کی کارروائی کے لئے تیار ہیں۔
اس حوالے سے بھارت کے جونیئر وفاقی وزیردفاع راجو نے خبر ایجنسی PTI کو بتایا کہ فوج صرف اسی وقت کاروائی کرتی ہے، جب حالات قابو سے باہر ہو جائیں۔ نئی دہلی میں ایک کانفرنس کے موقع پر راجو نے کہا کہ جموں کشمیر میں ملکی فوج تب تک تعینات رہے گی، جب تک اس کی ضرورت ہوگی۔ تاہم حکومت یہ چاہے گی کہ یہ عرصہ ممکنہ حد تک کم سے کم رہے۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں شہری ہلاکتوں کے خلاف مظاہروں کے دوران سکیورٹی دستوں کے ساتھ جھڑپوں کے نتیجے میں کم ازکم 12 عام شہری ہلاک ہو چکےہیں۔ ان ہلاکتوں میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری نیم فوجی سینٹرل ریزرو پولیس فورس CRPFکے اہلکاروں پر ڈالی جاتی ہے۔
انہی تازہ ہلاکتوں کے باعث مسلم اکثریتی آبادی والی وادیء کشمیر میں گزشتہ چند ہفتوں سےکشیدگی کی ایک ایسی لہر دیکھنے میں آ رہی ہے، جس دوران سکیورٹی دستوں کو بار بار مسلح کارروائی کرنے کے علاوہ متعدد شہروں میں کرفیو بھی نافذ کرنا پڑ گیا۔ اسی وجہ سے کشمیر کے متعدد قصبوں میں آج بدھ کے روز بھی کرفیو نافذ ہے۔
دریں اثنا بھارتی سرحدی حفاظتی فورس BSF کے انسپکٹر جنرل نے بدھ کے روز بتایا کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران اکھنُور سیکٹر میں سرحد پار سے پاکستانی رینجرز کی مبینہ فائرنگ کے نتیجے میں بی ایس ایف کے دو اہلکار ہلاک ہو گئے۔
بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کی طرف سے سرحد پار سے پاکستانی رینجرز پر فائرنگ کے اس الزام کے جواب میں آج اسلام آباد میں ان دعووں کی باقاعدہ تردید بھی کر دی گئی۔
پاکستان رینجرز کے ایک ترجمان نے اسلام آباد میں کہا کہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے شمال کی طرف سے سیالکوٹ کے نواح میں ایک گاؤں کے قریب بھارتی سرحدی دستوں نے پاکستانی علاقے میں خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کی اور مارٹر بموں کا استعمال کیا۔ ترجمان کے بقول اس فائرنگ کے نتیجے میں ایک پاکستانی سپاہی اور کئی مقامی باشندے زخمی ہو گئے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک