تائیوان پر امریکہ اور چین کے درمیان بیان بازی کا سلسلہ جاری
2 اگست 2022امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی اپنے چار روزہ دورہ ایشیا کے پہلے مرحلے میں سنگا پور پہنچی ہیں تاہم ابھی بھی یہ واضح ہے نہیں ہے کہ آیا وہ تائیوان بھی جائیں گی یا نہیں، اس حوالے سے چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی جاری ہے۔
وائٹ ہاؤس نے چین کو متنبہ کیا ہے کہ وہ امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے ممکنہ دورہ تائیوان کے حوالے سے اپنی بیان بازی کو کم کر دے کیونکہ بیجنگ کے پاس کشیدگی بڑھانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بالآخر یہ فیصلہ پیلوسی کو کرنا ہے کہ آیا انہیں تائیوان کا سفر کرنا ہے یا نہیں۔
اطلاعات کے مطابق وائٹ ہاؤس اور امریکی وزارت خارجہ دونوں ہی نینسی پیلوسی کے اس وقت تائیوان کے دورے کے حق میں نہیں ہیں۔ ادھر بیجنگ نے اس دورے کو انتہائی اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے جزیرے کے آس پاس اپنی فوجی موجودگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔
امریکہ نے کیا کہا؟
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کے خیال میں فی الوقت پیلوسی کا تائیوان کا دورہ ''کوئی اچھا خیال نہیں ہے۔''
اس کے بعد وائٹ ہاؤس نے پیر کے روز خبردار کیا کہ چین نینسی پیلوسی کے تائیوان کے دورے کا جواب فوجی اشتعال انگیزی سے دے سکتا ہے۔ ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ اس کے تحت چین تائیوان کے قریب میزائل فائر کرنے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر فضائی یا بحری سرگرمیاں بھی انجام دے سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین آنے والے دنوں میں ''جعلی قانونی دعوے کے ساتھ'' کشیدگی میں اضافہ کر سکتا ہے، مثال کے طور پر وہ یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ ''آبنائے تائیوان بین الاقوامی آبی گزرگاہ نہیں ہے۔'' انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بیجنگ تائیوان کی فضائی حدود میں منصوبہ بند مداخلت کے حصے کے طور پر جزیرے کی طرف اپنی پروازیں بھیج سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''سادہ الفاظ میں کہیں تو بیجنگ کے پاس کوئی جواز نہیں ہے کہ وہ دیرینہ امریکی پالیسی کے باوجود ممکنہ دورے کو کسی قسم کے بحران میں تبدیل کر دے، یا اس دورے کو آبنائے تائیوان میں یا اس کے آس پاس جارحانہ فوجی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے بطور بہانہ استعمال کرے۔''
تاہم انہوں نے صحافیوں سے یہ بھی کہا کہ اسپیکر کو تائیوان کا دورہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ کربی نے مزید کہا کہ امریکہ ڈرے گا نہیں اور بحرالکاہل کے علاقے میں آزادانہ نقل و حرکت جاری رکھے گا۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ خود مختار جزیرے کے حوالے سے امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور امریکہ تائیوان پر چین کی خود مختاری کو تسلیم کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ بھی تو نہیں بدلا ہے۔ ''حقیقت میں اس کے لیے ہنگامہ برپا کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔''
مسٹر کربی نے نشاندہی کی کہ ایوان کے ریپبلکن سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ نے سن 1997 میں تائیوان کا دورہ کیا تھا اور رواں برس کے اوائل میں دیگر امریکی قانون سازوں نے بھی تائیوان کا دورہ کیا تھا۔
امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نے اتوار کے روز ایشیا کے اپنے دورے کا آغاز کیا تھا اور اعلان کے مطابق وہ سنگاپور، ملائیشیا، جنوبی کوریا اور جاپان میں قیام کریں گی۔ تاہم امریکی اور تائیوان کی میڈیا کے مطابق وہ تائی پے بھی جانے والی ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں پیلوسی نے کہا تھا کہ ''ہمارے لیے تائیوان کے لیے حمایت ظاہر کرنا اہم ہے۔''
چین کی تنبیہ
ان امریکی بیانات سے قبل پیر کے روز ہی چین نے امریکا کو متنبہ کیا تھا کہ اگر نینسی پیلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا، تو بیجنگ خاموش نہیں بیٹھے
گا۔ بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا کہ ''اگر وہ دورہ کرنے پر اصرار کرتی ہے تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔''
انہوں نے کہا، ''ہم کسی بھی صورت حال کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں۔ پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کبھی خاموش نہیں بیٹھے گی۔ چین اپنی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے مضبوط اور پرعزم اقدامات کرے گا۔''
خبر رساں ادارے روئٹرز نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ پی ایل اے کے جنگی طیارے پیر سے ہی چین اور تائیوان کو الگ کرنے والی آبنائے تائیوان کی درمیانی لائن کے قریب کھڑے ہیں اور منگل کی صبح کئی فوجی جیٹ طیاروں نے لائن کے قریب پرواز بھی کی۔ اطلاعات کے مطابق تائیوان نے بھی صورتحال کی نگرانی کے لیے اپنے طیارے روانہ کیے تھے۔
تائیوان کے متعدد میڈیا اداروں نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ پیلوسی دو اگست منگل کے روز تائیوان کا دورہ کریں گی اور رات تائی پے میں گزاریں گی۔ ایک اخبار لبرٹی ٹائمز کے مطابق پیلوسی بدھ کی صبح تائیوان کی پارلیمنٹ کا دورہ کرنے والی ہیں۔
ادھر اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے چین سے مطالبہ کیا کہ اگر مسز پیلوسی دورہ کرتی ہیں تواس صورت بیجنگ کو ناپ تول کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے نیویارک میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسپیکر دورہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں اور چین کسی قسم کا بحران پیدا کرنے یا دوسری صورت میں تناؤ بڑھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی پوری ذمہ داری بیجنگ پر عائد ہو گی۔''
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر وہ دورہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں، تو ''ہماری توقع یہی ہے کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور آگے بڑھنے میں کسی بھی طرح کی کشیدگی میں ملوث ہونے سے گریز کریں۔''
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)