تاجکستان : جھڑپ میں القاعدہ سے وابستہ جنگجو لیڈر ہلاک
5 جنوری 2011وسطی ایشیائی ریاست تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ سے وزارت دفاع کی جانب سے جاری ہونے والے ایک حکومتی اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ سکیورٹی فوج کے ساتھ ہونے والی ایک جھڑپ میں کم از کم آٹھ مشتبہ جنگجوؤں کو ہلاک کردیا گیا ہے۔
حکومت کے مطابق یہ جھڑپ دارالحکومت سے 180 کلومیٹر کی دوری پر مشرقی پہاڑی علاقے میں واقع رشت وادی میں ہوئی۔ سرکاری فوج نے آپریشن شروع کیا تو عسکریت پسندوں کی جوابی کارروائی سے یہ آپریشن جھڑپ میں تبدیل ہو گیا۔ اس جھڑپ میں کامیابی کے بعد سرکاری فوج نے اسلحے کے ایک بڑے ذخیرے پر بھی قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
تاجک وزارت دفاع کے مطابق ہلاک شدگان میں ایک مفرور مشتبہ دہشت گرد لیڈر علاؤالدین دولتوف بھی ہے۔ علاؤالدین کے مارے جانے کی تصدیق وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ افسر جنرل تخیر نارماتوف (Takhir Normatov) نے کردی ہے۔ ہلاک ہونے والا انتہا پسند لیڈر اپنے حلقے میں ملا عبداللو کے نام سے مشہور تھا۔ حکومت نے تازہ آپریشن کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ ملا عبداللو کے مرکزی ٹھکانے کو تباہ کردیا گیا ہے۔
حکومتی بیان کے مطابق اسی لیڈر کے حکم پر گزشتہ سال انیس ستمبر میں جنگجووں نے فوجی قافلے پر حملہ کیا تھا۔ اس خونی حملے میں 25 سے زائد تاجک فوجی ہلاک کردیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ ایک نائٹ کلب اور پولیس بلڈنگ پر خود کش حملے میں بھی دولتوف کے ساتھیوں کی شرکت خیال کی جاتی ہے۔ یہ تمام دہشت گردانہ واقعات ستمبر میں رونما ہوئے تھے۔ تاجک حکومت تب سے اس مشتبہ لیڈر کی تلاش میں تھی۔ اس کی ہلاکت کو ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
تاجکستان انتہائی پسماندہ اور غریب سیکولر ملک ہے۔ اس میں اکثریت مسلم آبادی کی ہے۔ تقریباً بیس سال پہلے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس کو آزادی ملی تھی۔ اس ملک میں انتہا پسندوں اور حکومت کے درمیان خونی خانہ جنگی وقوع پذیر ہو چکی ہے، جس کا اختتام سن 1997 میں ہوا۔ تاجکستان، شورش زدہ ملک افغانستان کے ساتھ تیرہ سو کلو میٹر سے طویل سرحد رکھتا ہے اور یہ انتہاپسندوں کی انتہائی اہم گزرگاہ ہے ۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: امتیاز احمد