تارکین وطن کے انضمام کے پالیسی انڈکس پر بھارت سب سے نیچے
12 جنوری 2021ایک نئی تحقیق کے نتائج میں يہ سامنے آيا ہے کہ صحت عامہ، تعلیم، مزدوروں کی نقل و حرکت اور معاشرتی امتياز کے تناظر میں بھارت کی پالیسیاں انضمام کی حمایت نہیں کرتیں۔
'مائیگرینٹ انٹگریشن پالیسی انڈکس 2020 ء‘ کے مطابق گزشتہ برس تارکین وطن کی معاشرے میں شمولیت اور انضمام کے حوالے سے جن 52 ممالک ميں تحقیق کی گئی ان میں بھارت سب سے نچلے درجے پر رہا۔ مہاجرین کی صورتحال سے متعلق یہ انڈکس حال میں شائع ہوا جس کے مطابق بھارت نے 100 پوائنٹس میں سے 24 پوائنٹس حاصل کیے جبکہ اس انڈکس میں اوسط پوائنٹس 50 ہوتے ہیں۔ اس سبب بھارت کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جو 'تارکین وطن کا انضمام‘ ممکن بنانے کے ليے مناسب کارروائی نہيں کر رہے۔
مائیگرینٹ انٹگریشن پالیسی انڈکس
یہ انڈکس دراصل مختلف ممالک کی 'پالیسی آلے‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ انڈیکس بین الاقوامی تارکین وطن کے بارے میں آٹھ 'پیرا میٹرز‘ پر مشتمل کسی بھی ملک کی پالیسیوں کی پیمائش کرتا ہے۔ یہ انڈکس دو یورپی تھنک ٹینکس تیار کرتے ہیں۔ برسلز کا مائیگریشن پالیسی گروپ اور بارسلونا سینٹر برائے بین الاقوامی امور۔ ان دونوں نے مشترکہ طور پر اس انڈکس کی تیاری اور اشاعت کا کام 2014 ء سے شروع کر رکھا ہے۔
2020 ء کے مائیگرینٹ انٹگریشن پالیسی انڈکس کے مطابق جہاں چین اور انڈونیشیا جیسے دیگر ایشائی ممالک اپنی انضمام کی پالیسیوں میں بہتری لائے ہيں، وہاں گزشتہ پانچ برسوں میں بھارت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ 20 شعبوں کی کلیدی پالیسیوں میں بھارت کا مہاجرین انضمام پالیسی کے حوالے سے اسکور 20 پوائنٹس سے بھی کم رہا۔ ان شعبوں میں لیبر مارکیٹ، تعلیم، صحت، قومیت کا حصول اور امتیازی سلوک کے خلاف اقدامات سمیت دیگر اہم شعبوں میں بھارت کا اسکور خاصہ گرا ہے۔
بھارت مہاجرت کے اعتبار سے کم کیوں؟
بھارت گرچہ دنیا بھر میں تارکین وطن کے اعتبار سے سب سے اہم منزل نہیں ہے پھر بھی 2011 ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت 5 ملین تارکین وطن کا گھر ہے۔ اقوام متحدہ کے شعبہ برائے اقتصادی و سماجی امور کی آبادی کے ڈویژن کی طرف سے سن 2019 میں فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق بھارت میں 1990ء میں تارکین وطن کی تعداد 7.6 ملین تھی جس میں واضح کمی کے بعد 2019 ء میں یہ تعداد کم ہو کر 5.1 فیصد رہ گئی۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے اسی طرح کے اندازوں سے پتا چلتا ہے کہ 2020 ء میں بھارت میں تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد 210,201 رہی۔
یہ اعداد و شمار اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کے 2020 ء کی 'بھارت فیکٹ شیٹ‘ میں شامل ہیں۔ مزید یہ کہ 2019 ء میں بھارت میں مقیم تارکین وطن کا 95.3 فیصد وسطی اور جنوبی ایشیا سے تھا جن میں پڑوسی ملک پاکستان، بنگلہ دیش،نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور افغانستان بھی شامل ہیں۔ یہ تعداد 1990 ء میں بھی کم و بیش اتنی ہی تھی۔ 'ورلڈ مائیگریشن رپورٹ 2020ء‘ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 17.5 ملین تارکین وطن کا تعلق بھارت سے ہے۔
متعلقہ شعبوں میں بھارت کی کمزور کارکردگی
بھارت کا مہاجرین انضمام پالیسی کا مجموعی انڈکس دیگر تمام ممالک میں سب سے کم سطح پر ہے۔ سوائے ' فیملی ری یونین‘ کے مہاجرین کے انضمام سے متعلق تمام دیگر شعبوں کی پالیسی میں بھارت اوسط اسکور سے کافی نیچے ہے۔ بہت سے اہم شعبوں کی پالیسی میں بھارت کی پالیسی کو بدترین قرار دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر مزدوری کی منڈی، صحت کی سہولیات، نقل و حرکت اور قومیت کے حقوق تک رسائی جیسے امور میں بھارت کی پالیسی بہت ہی ناقص ہے۔ بھارت میں روزگار کے ویزے تک رسائی چند مخصوص شرائط پر مشتمل ہے۔ صرف وہ لوگ جو اعلیٰ ہنر مند پس منظر کے حامل ہیں وہ سالانہ 25 ہزار ڈالر سے زائد کمانے کے اہل مانے جاتے ہیں۔
مزید برآں وزارت داخلہ کے ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق تارکین وطن کو ایسے شعبوں میں ملازمت کا ویزہ نہیں دیا جاتا ہے جن میں کام کرنے کے اہل بھارتی باشندے موجود ہوں۔ کاروباری ویزا پر غیر ملکی رہائشیوں کے پاس ' سیلف امپلوئمنٹ‘ کا اختیار ہے لیکن لیبر مارکیٹ تک رسائی کو فروغ دینے یا ان کے لیے پیشہ وارانہ مہارت کو بہتر بنانے کے لیے کسی قسم کی مدد یا مواقع میسر نہیں ہیں۔
ناقص عوامی تاثر
ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں پر تارکین وطن کے اثرات کے بارے میں بہت کم آگاہی پائی جاتی ہے۔ بھارت میں جہاں ایک طرف تارکین وطن معاشرتی اور ثقافتی تنوع میں اضافے کا سبب ہیں وہاں بھارتی معیشت میں پڑوسی ممالک جیسے کہ نیپال وغیرہ کے تارکین وطن غیر رسمی شعبوں میں تعمیراتی کارکن، گھریلو مدد، صفائی ستھرائی کے کاموں، بارز اور ریستوراں کے کارکنوں اور چھوٹے تاجروں کی حیثیت سے بڑا حصہ ڈال رہے ہیں۔ بدقسمتی سے، ان کی اس طرح کے شراکت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ معیشت میں نہ ہی اس حصے کی پیمائش کی جاتی ہے نہ ہی ان کے کردار کو مثبت طریقے سے تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ اس کے برعکس تارکین وطن کو اکثر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ بروکروں کے ذریعے ان کا استحصال کیا جاتا ہے، مالکان ان سے وعدے کرتے ہیں اور بعض اوقات وعدوں سے بہت کم قیمت ادا کی جاتی ہے ۔ بارڈر سیکیورٹی فورسز بھی ان کے ساتھ اکثر ناروا سلوک روا رکھتے ہیں۔
کلکتہ ریسرچ گروپ، جس نے سرحد پار روہنگیا اور بنگلہ دیشی تارکین وطن کے ساتھ فیلڈ ورک کیا، کا کہنا ہے کہ بھارت میں امیگریشن پالیسی کا کوئی باقاعدہ فریم ورک نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش میں ترقی کے بہتر نتائج نے اسے ہندوستان کے مساوی کھڑا کر دیا ہے۔
بھارتی حکومت نے ایکٹ 1983 ء کے تحت اس پر کڑی نظر رکھنے کے لیے خصوصی ٹریبونلز کا بھی قیام کیا ہے کہ آیا کوئی شخص غیر قانونی تارکین وطن ہے ۔ تبت اور سری لنکا کے مہاجرین اور پڑوسی مسلم اکثریتی ممالک کی مذہبی اقلیتوں کے داخلے کے لیے اور ان کی بحالی کے لیے تو 'ایڈہاک پالیسیز‘ بنائی جاتی ہیں دوسری جانب شہریت ترمیمی قانون 2019 ء قابل فکر ہے، جس میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے مذہبی اقلیتوں کے لیے شہریت کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے - مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق اس سے حقیقت میں صرف 31،313 افراد کو فائدہ پہنچے گا۔
ک م/ ع س