تازہ ڈرون حملہ، اسلام آباد حکومت کی تنقید
29 مئی 2013بدھ کے روز دفتر خارجہ سے جاری کیے گئے ایک مختصر بیان کے مطابق حکومت پاکستان مسلسل کہتی آئی ہے کہ ڈرون حملے غیر ضروری ہیں، جن میں معصوم شہری بھی مارے جاتے ہیں اور اس کے انسانی حقوق کے حوالے سے بھی مضمرات ہیں۔ اس سے قبل بدھ کو قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں امریکی جاسوس طیارے کے حملے میں کم ازکم چھ شدت پسند ہلاک جبکہ دو زخمی ہوگئے تھے۔
پاکستان میں گیارہ مئی کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد یہ پہلا امریکی ڈرون حملہ تھا۔ شمالی وزیرستان میں یہ ڈرون حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا، جب عام انتخابات کے بعد انتقال اقتدار کے پہلے مرحلے میں پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا اور سندھ کی اسمبلیوں میں نو منتخب ارکان نے حلف اٹھایا۔
قبائلی علاقوں سے ملحق صوبے خیبر پختوانخوا میں عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اکثریت حاصل کرنے کے بعد اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کے لیے تیار ہے۔ تحریک انصاف ڈرون حملوں کے نہ صرف خلاف رہی ہے بلکہ ان حملوں کی مخالفت میں احتجاجی دھرنے بھی دیتی رہی ہے۔
ادھر مرکز اور سب سے بڑے صوبے میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت مسلم لیگ (ن) بھی اقتدار میں آکر ڈرون حملے ختم کرانے کے دعوے کرتی رہی ہے۔ تاہم تازہ ترین ڈرون حملے کو ان دونوں جماعتوں کی قیادت کے لیے آنے والے دنوں میں ایک بڑا چیلنج سمھجا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما سابق سینیٹر انور بیگ کا کہنا ہے ایک ایسے وقت میں جب پاکستان ایک تاریخی جمہوری سفر سے گزر رہا ہے، امریکی ڈرون حملہ افسوسناک ہے۔
ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انور بیگ نے کہا کہ ان کی جماعت کے سربراہ میاں نواز شریف کا ڈرون حملوں کے بارے میں مؤقف واضح ہے۔ انہوں نے، ’’امریکا کے اعلی سطحی وفد کی جون میں پاکستان آمد متوقع ہے۔ میں سمھجتا ہوں کہ ایجنڈے میں سرفہرست یہ ایشو ہوگا کہ پاکستانی عوام کی رائے میں ڈرون حملے ایکدم غیر ضروری ہیں اور یہ کسی طریقے سے بھی قابل قبول نہیں۔ امریکی جتنی بھی اچھائی کریں ایک ڈرون حملہ آپ کو بیس سال پیچھے لے جاتا ہے‘‘۔
’طاقت کے ذریعے امن قائم رکھنے کی کوشش‘
نیٹو کی فوجی کمیٹی کے سربراہ جنرل نوڈ بارٹلز نے گزشتہ روز پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کی تھی ۔ پاکستانی فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ملاقات میں جنرل بارٹلز نے افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال پر بات کی۔
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نیٹو افواج کے کمانڈروں کی پاکستانی فوجی قیادت سے حالیہ ملاقاتوں کا مقصد افغانستان سے بین الاقوامی فوج کی پر امن واپسی اور بعد کی صورتحال کو قابو میں رکھنا ہے۔ دفاعی تجزیہ کار ائیر مارشل (ر) مسعود اختر کا کہنا ہے کہ امریکی صدر واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان سے انخلاء کے بعد بھی یہاں بات چیت اور طاقت کے ذریعے امن قائم رکھیں گے۔
مسعود اختر نے مزید کہا، ’’جب امریکا کہہ رہا کہ وہ بات چیت کرنا چاہتا ہے تو امریکا نے ہمیشہ اپنی یہ پالیسی رکھی ہے کہ افکار کی جنگ اور ہتھیاروں کی جنگ دونوں کرے گا۔ تو یہ ڈرون حملے اس کی ہتھیاروں کی جنگ کا حصہ ہیں۔ اوباما نے صاف کہا ہے کہ ہے کہ اگر وہ چلے بھی جائیں تو یہاں پر ایک انسداد دہشت گردی کے لیے ایک مؤثر طاقت ضرور رہے گی اور اس انسداد دہشت گردی فورس کا سب سے اہم حصہ میرے نزدیک ڈرون حملے رہیں گے۔‘‘
اسی دوران مقامی ذرائع ابلاغ پر ایسی خبریں بھی نشر کی جارہی ہیں کہ بدھ کوشمالی وزیرستان پر کیے گئے ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کا نائب سربراہ ولی الرحمان بھی مارا گیا ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عاطف بلوچ