تجزیہ: کیا افریقہ میں جمہوریت کی ضرورت ہے؟
29 جنوری 2022تاریخ میں سن 2021 ایک ایسا سال رہا جب افریقی ملکوں میں فوجی بغاوتیں پھر سے پلٹ آئی ہیں۔ چند مہینوں میں مالی، گنی، سوڈان اور چاڈ میں درجنوں بغاوتیں اور حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوششیں کی گئیں۔ سن 2022 میں بھی پچھلے سال سے کوئی سبق حاصل نہیں ہوا اور گزشتہ ہفتے برکینا فاسو میں فوج نے حکومت پر قبضہ کر لیا ہے۔
فوجی حکومت ختم کی جائے، ہزاروں سوڈانی شہریوں کا مطالبہ
لوگ جانتے ہیں کہ ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائیوں میں افریقی براعظم کے کئی ممالک میں فوجی بغاوتوں کا دور دورہ تھا۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ لوگوں کا صبر جب ختم ہو جاتا ہے تو فوج سویلین حکومت کو فارغ کر کے اقتدار سنبھال لیتی ہے۔
مغربی معیارات اور منتخب افریقی رہنما
افریقی ممالک میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آیا جمہوری نظامِ حکومت اس براعظم کے لیے ایک مناسب طرزِ حکومت ہو سکتا ہے۔ یہ بحث اس وقت سوشل میڈیا پر جاری ہے۔ کئی افراد نے جمہوریت سے بیزاری کے ساتھ ساتھ مغرب دشمنی کے اظہار کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ اس مایوسی کی وجوہات حقیقت میں منتخب لیڈروں میں مطلق العنانیت کے چھپے رویے اور غریب عوام کے باوجود شاہانہ طرز زندگی قرار دیا جا رہا ہے۔ ان افریقی لیڈروں میں یہ بھی نہیں پایا جاتا کہ وہ اپنے مخالف جذبات کو جگہ دیں اور دستور میں مناسب تبدیلیاں بھی پیدا کریں۔
یہ تمام حکومتی تبدیلیاں ان اقوام کے سامنے پیدا ہو رہی ہیں، جو خود کو جمہوری طرزِ حکومت کا داعی سمجھتی ہیں۔ ان اقوام کا تعلق مغربی یورپ اور شمالی امریکا سے ہے۔ تادیبی اقدامات اٹھانے کے بجائے یہ اقوام افریقی ممالک کے جمہوری طور پر منتخب مگر آمرانہ طرزِ حکومت کو پسند کرنے والے رہنماؤں کو اپنے اقتصادی مفادات کے تناظر میں جائز حکمران قرار دیتی ہیں۔ ان حکمرانوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کرپشن کو بھی نظارانداز کر دیا جاتا ہے۔
سوڈان میں فوجی بغاوت، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی تشویش
مغربی اقوام کی چشم پوشی اور تنقید
یورپ اور شمالی امریکا کی جانب سے بہتر نظام حکومت کو فروغ دینے، غربت کم کرنے اور انسدادِ بدعنوانی کے لیے اربوں ڈالر بھی فراہم کیے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ افریقہ کے آمرانہ طرزِ حکومت رکھنے والے لیڈروں کی مالی معاونت بھی کی گئی تا کہ وہاں کے قدرتی وسائل تک رسائی حاصل کی جا سکے۔
امریکا، فرانس، جرمنی اور ناروے نے یوگنڈا میں اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں، کیمرون، کینیا اور نائجیریا میں پولیس کے تشدد پر کھلے انداز میں تنقید بھی کی۔
دوسری جانب جمہوریہ کانگو داخلی انتشار کا شکار ہے لیکن مغرب کو کوئی مسئلہ نہیں اس وقت تک جب تک وہاں کے معدنی ذخائر کوبالٹ اور کولٹان تک انہیں رسائی حاصل ہے کیونکہ یہ سمارٹ فون، سمارٹ کاروں اور سمارٹ گھروں کے لیے درکار ہیں۔
افریقی یونین نے فوجی بغاوت کے سبب مالی کی رکنیت معطل کر دی
ان دہرے معیارات نے اس پوری صورت حال میں گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ساٹھ برسوں تک ترقیاتی امداد دینے کے باوجود افریقی ممالک کے لوگ بدستور غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور خانہ جنگی جیسے حالات کا سامنا ہے۔
خیر خواہ، نیک نام اور مہربان آمروں کی تلاش
ایسے آمروں کی تلاش میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے سابق ایگزیکٹو ڈامبیسا مویو اور کینیا کے سیاسیات کے پروفیسر پیٹرک لوخ اوٹینو بھی شامل ہیں۔ ان کے نزدیک خیر خواہ و مہربان آمر کی موجودگی اہم ہے بھلے اس کی عمر کتنی ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ اس کی قیادت ثمر آور ہوتی ہے۔ جمہوری حکومتوں کی ناکامیوں کے تناظر میں نیک نام آمروں کے تصور کو اٹھایا گیا ہے۔
دنیا کے کئی اہم طاقتور لیڈران جیسا کہ روس کے ولادیمیر پوٹن اور ترکی کے رجب طیب ایردوآن ہیں، انہیں افریقہ کی لاکھوں عوام ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، صحافیوں کو خاموش کرانے کے رویوں اور اپوزیشن کو جیلوں میں ڈالنے کے باوجود راک اسٹار کی طرح پسند کرتی ہیں۔
ان فوجی بغاوتوں کے باوجود افریقی ممالک کو جمہوری حکومتوں کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس براعظم کو نیک نام و مہربان آمروں کی بھی ضرورت بھی نہیں ہے۔ لوگ ایسی حکومت چاہتے ہیں کہ وہ صدر کا مزاق بھی اڑائیں تو انہیں جیل میں نہ ڈالا جائے۔
افریقہ کو جمہوریت چاہیے
اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود جمہوریت عالمی سطح پر ایک مضبوط حکومتی نظام کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ دوسری جانب افریقی اقوام میں ایک نسل کے بعد نئی نسل ابھر رہی ہے لیکن کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکا ہے۔
برکینا فاسو کا بحران: فوجی حکومت پر بڑھتا عالمی دباؤ
علاقائی اقتصادی ادارے افریقی مفادات کو محفوظ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ افریقی یونین بھی زیادہ وقعت حاصل نہیں کر پائی۔ ایسے ادارے آمریت پسندوں کی حمایت ڈھکے چھپے انداز میں کرتے ہیں۔
حقیقت میں افریقی ممالک کو کثیر سیاسی جماعتی جمہوری نظام درکار ہے اور افریقی سیاسی اشرافیہ کو سوچنا چاہیے کہ ان کے براعظم کو جمہوریت درکار ہے۔
ابوبکر جالوہ (ع ح/ع ت)