ترکی میں ناکام فوجی بغاوت، ایک سال بیت گیا
15 جولائی 2017گزشتہ برس پندرہ جولائی کو ترک فوج کے ایک گروپ نے ایردوآن حکومت کا خاتمہ کر کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ عوام اور وفادار فوج کی مدد سے اس ایک گروپ کی بغاوت کو ناکام بنا دیا گیا۔
انقرہ حکومت نے اس بغاوت کی تمام تر ذمہ داری امریکا میں مقیم جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن پرعائد کر دی تھی۔ گولن اس بغاوت میں ملوث ہونے کے حکومتی الزام کی مسلسل تردید کر رہے ہیں۔ ایردوآن حکومت نے گولن کی تحریک ’خدمت‘ کو بھی ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔
اس بغاوت کے بعد ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ کر کے کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اس کریک ڈاؤن کے تحت فوج، پولیس، یونیورسٹیوں سمت تمام تعلیمی اداروں، سرکاری محکموں، پولیس اور عدلیہ میں سے گولن کے مبینہ حامیوں کو چن چن کر نکال دیا گیا۔ ایسے افراد کی تعداد ایک لاکھ بیالیس ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے۔
گولن کی تنظیم کی رکنیت رکھنے والے ہزاروں افراد کو دہشت گردی اور غداری کے الزامات کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ جن مقید افراد کو ایسے الزامات کا سامنا ہے، اُن کی تعداد تقریباً پچاس ہزار بتائی جاتی ہے۔ گزشتہ برس ایردوآن غداری کے جرم کے تحت گرفتار ہونے والے افراد کے لیے موت کی سزا دوبارہ متعارف کرانے کے مطالبے پر اصرار بھی کرتے رہے۔
آج پندرہ جولائی کو ترکی کی نوے ہزار کے قریب تمام مساجد میں علی الصبح کی نماز کے بعد ناکام بغاوت میں ہلاک ہونے والوں کے لیے قران خوانی کے علاوہ مغفرت کی دعا بھی کی گئی۔ اس بغاوت کے ناکام ہونے پر شکرانے کے دعائیں بھی مانگی گئیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن ملکی پارلیمنٹ سے خطاب بھی کریں گے۔ یہ امر اہم ہے کہ ناکام بغاوت کے بعد ترک دستور میں ترمیم کے بعد ملک کے صدر کو وسیع اختیارات حاصل ہو چکے ہیں۔’گولن سے روابط‘: ترکی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ کی گرفتاریترکی میں استنبول یونیورسٹی کے تہتر اساتذہ بھی گرفتار’ہم ہار نہیں مانیں گے‘، مدیراعلیٰ کی گرفتاری کے بعد بھی ’جمہوریت‘ پرعزم