تمام خواتین کو اسقاط حمل کا حق حاصل ہے، بھارتی سپریم کورٹ
30 ستمبر 2022بھارتی سپریم کورٹ نے شادی کے بغیر ٹھہرنے والے حمل کو گرانے کے حوالے سے عائد پابندیوں کو ختم کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا، ’’اسقاط حمل کروانے یا نہ کرنے کا فیصلہ زندگی کی پیچیدہ حالات پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کا انتخاب صرف عورت ہی بیرونی مداخلت یا اثر و رسوخ کے بغیر، اپنی شرائط پر کر سکتی ہے۔"
اقتصادی بوجھ، رحم مادر میں ہی بچیوں کا قتل
عدالت عظمیٰ نے زور دے کر کہا کہ خواتین کو کسی بھی تیسرے فریق سے مشورہ کیے بغیر بھی اسقاط حمل کروانے کے لیے "تولیدی خود مختاری" حاصل ہونی چاہیے۔
جمعرات کے روز عدالت نے یہ فیصلہ اس کیس کی سماعت کے بعد سنایا، جس میں ایک غیر شادی شدہ خاتون، جو اپنی رضا سے ایک رشتے میں تھیں، نے یہ شکایت کی تھی کہ انہیں اسقاط حمل کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
25 سالہ خاتون کے حمل کے 20 ہفتے گزر چکے تھے، جبکہ بھارت میں عام حالات میں اسقاط حمل کی اجازت تین ماہ تک ہی تھی۔ سپریم کورٹ نے انہیں اب 24 ویں ہفتے تک حمل ختم کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے اہم کیوں؟
بھارت میں اسقاط حمل کا قانون
بھارت میں میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی، یعنی طبی مدد سے اسقاط حمل کا قانون سن 1971 کا ہے۔ اس قانون کے تحت شادی شدہ خواتین، طلاق یافتہ، نابالغ، بیواؤں، معذور، ذہنی طور پر بیمار یا پھر جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کے لیے اسقاط حمل کے حقوق بہت محدود تھے۔ تاہم عدالت کے اس فیصلے سے خواتین کو بڑی راحت ملی ہے۔
ایک آزاد ادارے آئی پی ایس ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن کے مطابق سن 2017 کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں سالانہ تقریباً 64 لاکھ اسقاط حمل کرائے جاتے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس تعداد میں سے نصف سے زیادہ غیر محفوظ طریقے سے حمل کو ضائع کیا جاتا ہے، کیونکہ غربت کی وجہ سے بہت سی خواتین اسقاط حمل کے لیے غیر قانونی خفیہ طریقوں اور دوائیوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوتی ہیں۔
ص ز / ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)