1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’تمباکو نوشی منع ہے‘، چین میں نئے سخت قوانین

امجد علی29 مئی 2015

چینی تاریخ میں اپنی نوعیت کے سخت ترین قوانین کے تحت دارالحکومت کے دفاتر، ریستورانوں، ہوٹلوں اور ہسپتالوں کے اندر بھی تمباکو نوشی پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانے ادا کرنا پڑیں گے۔

https://p.dw.com/p/1FYpk
China Raucher in der Provinz Guizhou, Zhaoxing
عالمی ادارہٴ صحت کے اندازوں کے مطابق تقریباً 53 فیصد چینی مرد تمباکو نوشی کرتے ہیںتصویر: picture-alliance/akg

یکم جون پیر کے روز سے نافذ العمل ہونے والے ان قوانین کے تحت جو کاروباری ادارے اپنی حدود کے اندر تمباکو نوشی پر پابندی کی پاسداری کروانے میں ناکام رہیں گے، اُنہیں دَس ہزار یوآن (سولہ سو ڈالر) تک کا جرمانہ کیا جا سکے گا۔ کوئی شخص انفرادی طورپر تمباکو نوشی کرتا پکڑا جائے گا تو اُسے بھی دو سو یوآن کا جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ایک جائزے کے مطابق چینی تاریخ میں تمباکو نوشی کے خلاف اتنے سخت قوانین پہلے کبھی بھی متعارف نہیں کروائے گئے لیکن ان قوانین پر عملدرآمد مشکل نظر آتا ہے کیونکہ دنیا میں کسی بھی ملک میں لوگ اتنی زیادہ تمباکو نوشی نہیں کرتے، جتنے کہ چین میں۔

Geschminkter Chinese mit Zigarette
موقع پر ہی تمباکو نوشی کرتے پکڑے گئے چینیوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کی جا سکیں گیتصویر: AP

نئے سخت قوانین کے تحت چند ایسی جگہوں پر بھی تمباکو نوشی کی ممانعت ہو گی، جو اسکولوں، ہسپتالوں یا ایسے مراکز سے قریب ہوں گی، جہاں کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ اسی طرح کھلے مقامات پر تمباکو نوشی سے متعلق اشتہارات پر بھی پابندی ہو گی۔

ان قوانین پر عملدرآمد کی نگرانی ہیلتھ کمیشن کے انسپکٹرز کریں گے، جو موقع پر جا کر معائنے کریں گے اور عوام کی جانب سے فراہم کردہ معلومات پر کارروائی کریں گے۔ دارالحکومت بیجنگ میں مختلف مقامات پر آویزاں کیے گئے پوسٹرز پر ایک ہاٹ لائن ٹیلیفون نمبر دیا گیا ہے، جہاں عوام فون کر کے تمباکو نوشی سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے بارے میں حکام کو اطلاع دے سکیں گے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر ایک نیا اکاؤنٹ بھی بنایا گیا ہے، جس پر تمباکو نوشوں کی تصاویر اَپ لوڈ کی جا سکیں گی۔ یہ وہ تصاویر ہوں گی، جو عام لوگوں نے تب اُتاری ہوں گی، جب اُنہوں نے کسی شخص کو موقع پر ہی پکڑا ہو گا اور تمباکو نوشی کرتے وقت اُس کی تصویر اتار لی ہو گی۔

ایک ایسے سروے کا بھی اعلان کیا گیا ہے، جس میں لوگوں سے یہ پوچھا گیا ہے کہ ہاتھ کا کونسا اشارہ لوگوں کو تمباکو نوشی سے منع کرنے کے لیے موزوں رہے گا۔

چین میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ تمباکو نوشی کے خلاف قوانین متعارف کروائے گئے ہوں۔ ابھی 2011ء میں ایسے ہی قوانین نافذ کیے گئے تھے، جن میں جرمانے کی سزا بہرحال شامل نہیں تھی لیکن اُن قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر رہا۔

Ausstellung in China
چین میں 2011ء میں بھی ایسے ہی قوانین نافذ کیے گئے تھے، جن میں جرمانے کی سزا بہرحال شامل نہیں تھی لیکن اُن قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر رہاتصویر: picture-alliance/dpa

ماہرین کے مطابق چین میں تمباکو نوشی کے خلاف قوانین پر عملدرآمد کروانا کافی مشکل ثابت ہو گا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں کی آبادی میں تمباکو نوشوں کی شرع بہت زیادہ ہے۔ عالمی ادارہٴ صحت کے اندازوں کے مطابق تقریباً 53 فیصد چینی مرد تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ ایک اور وجہ سستے سگریٹ ہیں۔ ایک پیکٹ دَس یوآن میں مل جاتا ہے۔

تیسری اور شاید سب سے بڑی وجہ چین کی سرکاری ٹوبیکو انڈسٹری ہے، جس سے چینی معیشت کو مثلاً 2014ء میں ٹیکسوں اور ریونیو کی شکل میں 911 ارب یوآن (146 ارب ڈالر) حاصل ہوئے تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید