تنازعات کے شکار بھارتی علاقوں میں صحافی خطرے میں
7 جنوری 2011ذرائع ابلاغ کے کارکنوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے آج جمعہ کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ بھارت میں، جو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، بدامنی اور مسلح تنازعات کے شکار علاقوں میں فرائض انجام دینے والے صحافیوں کو اس طرح کی سکیورٹی سہولیات حاصل نہیں ہیں، جو بھارت ہی کے بڑے شہروں میں مصروف عمل صحافیوں کو حاصل ہوتی ہیں۔
اس تنظیم نے اپنے بیان میں بھارتی حکومت سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ گزشتہ ہفتے دو مختلف بھارتی ریاستوں میں ان دو صحافیوں کی گرفتاری کی وضاحت کرے، جن پر الزام تھا کہ انہوں نے پیشہ ورانہ طور پر کمیونسٹ باغیوں سے ملاقات کی تھی۔
Reporters without Borders کے مطابق گرفتار کیے جانے والے ان دونوں بھارتی صحافیوں میں سے ایک کو پولیس نے یکدم اپنی حراست میں لے لیا جبکہ دوسرا گرفتاری کے وقت ایک ادبی کانفرنس میں شرکت کر رہا تھا۔
اس تنظیم نے اپنے بیان میں ایسے افراد کے خلاف انتقامی طور پر الزامات عائد کیے جانے کی بھی مذمت کی، جو ایک صحافی کے خلاف مقدمے میں گواہ ہیں۔ اس واقعے میں ایک ایسے بھارتی صحافی کو اپنے خلاف کارروائی کا سامنا ہے جو جنوبی ریاست کرناٹک میں پولیس کی طرف سے نا انصافیوں اور اختیارات کے غلط استعمال سے متعلق تفصیلات منظر عام پر لایا تھا۔
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں قائم صحافیوں کی اس تنظیم نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سرکاری حکام کی طرف سے طاقت کے غلط استعمال اور انتقامی کارروائیوں کے خلاف صحافیوں کو تحفظ کی ضمانت دے۔
اس کی ایک مثال دیتے ہوئے بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کے وسطی علاقے میں ایک ایسی ملیشیا کا ذکر بھی کیا گیا ہے، جسے پولیس کی حمایت حاصل ہے اور جو صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کو دھمکی آمیز خط بھیجتی رہتی ہے۔ اس ملیشیا کی طرف سے تین صحافیوں کو گزشتہ ماہ ایسے خط بھیجے گئے تھے، جن میں دھمکیاں دی گئی تھیں کہ وہ یا تو اس بھارتی ریاست سے چلے جائیں یا پھر ’کتے کی موت‘ مرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک