توہین رسالت کا قانون ختم ہونا چاہئے: پاپائے روم
10 جنوری 2011ویٹی کن سٹی میں سال کے آغاز پر غیر ملکی سفیروں سے روایتی گفتگو کرتے ہوئے پوپ بینڈیکٹ کا کہنا تھا کہ یہ قانون بے انصافی اور تشدد پر مبنی واقعات کا سبب بنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک مرتبہ پھر پاکستانی قیادت سے یہ کہتے ہیں کہ وہ اس قانون کے خاتمے کے لیے ضروری اقدامات کرے اور یہ کہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے افسوسناک قتل سے اس سمت میں اقدامات کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
پاکستان کے ترقی پسند اور لبرل حلقوں نے پپاپائے روم کے اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ توہین رسالت کا قانون ایک ڈکٹیٹر نے بنایا تھا اور یہ کوئی خدائی قانون نہیں، جس میں تبدیلی ممکن نہیں۔ اس بارے میں سول سوسائٹی کی سرگرم کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری کہتی ہیں:
’ بالکل یہ سیاسی بلیک میلنگ کی بات ہے، جو کہ نہیں ہونی چاہیے اور حکومت کو اس معاملے میں سٹینڈ لینا چاہئے کیونکہ یہ ایشو جو تھا اور مذہبی حلقوں طرف سے جو مذہبی دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اس سے خوفزدہ ہو کر حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم اس معاملے کو دیکھیں ہی نہیں… توہین رسالت تو وہ لوگ کر رہے ہیں، جو اس قانون کو مقدس سمجھ رہے ہیں۔ یہ کوئی خدائی قانون تو نہیں ہے۔‘
اقلیتوں کے سابق وفاقی وزیر اور اقلیتی رہنما جے سالک کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت کی جو فضا ہے، اس کے خاتمے کے لیے بین المذاہب ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ
'' ہمیں واپس اسی جگہ پر آنا پڑے گا، جہاں سے ہم نے انسانیت کا آغاز کیا تھا اور تمام مذاہب ہمیں انسانیت کی تعلیم دیتے ہیں۔ معاشرے سے رواداری، برداشت اور انسانیت کے نصاب کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔''
خیال رہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کے موضوع پر اس وقت بحث مباحثوں نے شدت اختیار کر لی، جب گزشتہ نومبر میں شیخو پورہ کی عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو مبینہ طور پر توہین رسالت کے الزام میں ایک عدالت نے موت کی سزا سنائی۔
مقتول گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے اس خاتون کی سزا معاف کرانے کے لیے صدر آصف زرداری سے اپیل کی تھی، جس پر مذہبی حلقے ان سے خاصے ناراض تھے اور پھر بالآخر گزشتہ ہفتے سلمان تاثیر کو ان کے اپنے ہی ایک گارڈ نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
ادھر جے سالک کا کہنا ہے کہ پاپائے روم جیسے بڑے مذہبی رہنماؤں کو چاہئے کہ وہ عدم برداشت کے رویوں کے خاتمے کے لیے عالمگیر سطح پر ایک مہم شروع کریں۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: امجد علی