تھائی فوج کا مسلم باغیوں سے امن مذاکرات کی بحالی کا منصوبہ
30 جون 2014تھائی لینڈ کا جنوبی حصہ گزشتہ کئی برسوں سے بد امنی کا شکار ہے۔ وہاں مسلمان علیحدگی پسند ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصے سے حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ ماضی میں بنکاک حکومت نے ان مسلمان باغیوں کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی تھی، جس کے کوئی واضح نتائج نہیں نکلے تھے۔
تھائی لینڈ میں فوج کے اقتدار پر قبضے کے بعد قائم کی گئی قومی کونسل برائے نظم وضبط کے سیکرٹری جنرل ادوم دت سیتابُتر Udomdet Sitabutr نے آج بنکاک میں بتایا کہ جنوبی تھائی لینڈ میں مسلمان باغیوں کے ساتھ امن بات چیت دوبارہ شروع کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ان مذاکرات کی بحالی کے لیے ثالثی کا کام ملائیشیا نے کیا ہے۔ تھائی فوج کی قومی کونسل برائے نظم وضبط کے سیکرٹری جنرل کے مطابق جنوبی تھائی لینڈ میں مسلمان علیحدگی پسندوں کے باغی گروپ باریسان قومی انقلاب یا BRM کے ساتھ قیام امن کے لیے حکومتی مذاکرات گزشتہ برس تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔
تھائی لینڈ کے اس علاقے میں مسلم علیحدگی پسندوں کی تحریک کے دوبارہ زور پکڑنے کے بعد سے سن 2004ء سے اب تک وہاں پانچ ہزار سات سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ اس بارے میں سیتابُتر نے کہا، ''ایک طرح سے یہ مذاکرات ابھی بھی جاری ہیں۔ لیکن ان کی تفصیلات کا اس طرح تعین کیا جانا ضروری ہے کہ اس عمل میں کوئی پیش رفت ہو سکے۔ ان مذاکرات کے ذریعے ہم امن کے لیے کسی روڈ میپ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ تھائی لینڈ ایک ثالث کے طور پر ملائیشیا پر اعتبار کرتا ہے۔ ان کے مطابق، ’'ہمیں مذاکرات کی بحالی کے لیے اب تفصیلات کا تعین کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
تھائی لینڈ اکثریتی طور پر بودھ آبادی والا ملک ہے لیکن جنوبی تھائی لینڈ میں مسلمانوں کی آبادی کافی زیادہ ہے۔ خاص طور پر تین صوبوں میں تو مسلمان آبادی اکثریت میں ہے۔ ان صوبوں میں مرکزی حکومت کے خلاف عشروں سے سے باقاعدہ مزاحمت کی سوچ پائی جاتی ہے۔
انتخابی نظام میں ترمیم
میڈیا رپورٹوں کے مطابق فوجی حکومت نے ملک میں انتخابی نظام میں ترمیم کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ تھائی لینڈ میں فوج بائیس مئی کو پر امن بغاوت کے نتیجے میں اقتدار میں آئی تھی۔ فوج کے اقتدار پر قبضے سے پہلے وہاں چھ ماہ تک وزیر اعظم یِنگ لَک شیناوترا کے خلاف سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کیے جاتے رہے تھے۔
خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق بنکاک میں فوجی حکومت نے انتخابی نظام میں تبدیلی کا عمل فوج کے سربراہ جنرل پرایوتھ چان اوچا کے ایک حالیہ اعلان کے بعد شروع کیا ہے۔ اس اجلاس میں جنرل چان اوچا نے کہا تھا کہ ملک میں اگلے عام انتخابات 2015ء کے آخر میں کرائے جا سکتے ہیں۔