1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تھائی مارشل لاء کا خاتمہ مارشل لاء سے بدتر

مقبول ملک2 اپریل 2015

تھائی فوج نے کئی مہینوں سے نافذ مارشل لاء کے خاتمے کا جو فیصلہ کیا ہے، ناقدین اسے نظر کا دھوکا قرار دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور امریکا نے تنبیہ کی ہے کہ نئے سکیورٹی اقدامات سے تھائی فوج کی طاقت پر گرفت کمزور نہیں ہو گی۔

https://p.dw.com/p/1F1xU
پرایُت چان اوچاتصویر: AFP/Getty Images/K. Nogi

تھائی لینڈ میں گزشتہ دس مہینوں سے حکمران فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا تھا اور کل بدھ یکم اپریل کو رات گئے ملکی دارالحکومت بنکاک میں فوج کے سربراہ پرایُت چان اوچا نے اعلان کیا تھا کہ یہ مارشل لاء باقاعدہ طور پر اٹھا لیا گیا ہے۔

مارشل لاء کی نئی شکل

اس جنوب مشرقی ایشیائی ریاست میں مارشل لاء شروع سے ہی ایک متنازعہ قانون تھا اور بنکاک کے مغربی اتحادی ملکوں نے کئی بار مطالبہ کیا تھا کہ یہ مارشل لاء ختم کیا جائے۔ اب کہنے کو یہ مارشل لاء تو ختم کر دیا گیا ہے لیکن ایک ایسا سرکاری حکم نامہ بھی جاری کر دیا گیا ہے، جس کے تحت فوج اور موجودہ حکومت کے سربراہ چان اوچا کو حاصل غیر معمولی اختیارات آئندہ بھی ان کے پاس ہی رہیں گے۔

Thailand Militärputsch PK Armeechef Chan-ocha 20.05.2014
گزشتہ برس بیس مئی کو اقتدار پر قبضے کے بعد فوج کے سربراہ جنرل چان اوچا پریس کانفرنس کرتے ہوئے، فائل فوٹوتصویر: Getty Images

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حکم نامہ فوج ہی کے تیار کردہ عبوری آئین کی بہت متنازعہ شق نمبر 44 کے تحت جاری کیا گیا ہے، جو فوجی سربراہ چان اوچا کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ قومی سلامتی کے نام پر کوئی بھی حکومتی فیصلہ کر سکتے ہیں۔

اب صورت حال یہ ہے کہ تھائی لینڈ میں پانچ سے زائد افراد کی کسی بھی سیاسی اجتماع پر تاحال پابندی ہے۔ اس کے علاوہ فوج کو مسلسل یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شہری کو گرفتار کر کے اس کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے جو فوج کے مطابق قومی سلامتی کے خلاف جرائم کا مرتکب ہوا ہو یا جس نے تھائی بادشاہت کی توہین سے متعلق بہت سخت ملکی قوانین کی کسی بھی صورت میں خلاف ورزی کی ہو۔

نئی میڈیا سنسرشپ

فوجی سربراہ کے جاری کردہ اور مارشل لاء کے متبادل نئے سرکاری حکم نامے میں بظاہر ملکی میڈیا کے خلاف سنسرشپ بھی سخت کر دی گئی ہے۔ اب تھائی فوج کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا ہے کہ وہ ایسی خبروں کی اشاعت اور ان کے الیکٹرانک میڈیا پر نشر کیے جانے کو روک سکتی ہے، جنہیں فوج ’مسخ شدہ معلومات یا خوف پیدا کرنے کا باعث‘ سمجھتی ہو۔

اقوام متحدہ کی طرف سے تنقید

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین نے کہا ہے کہ بنکاک میں فوجی حکمرانوں نے اپنے لیے جن نئے اختیارات کا فیصلہ کیا ہے، وہ دراصل ’باقاعدہ مارشل لاء سے بھی زیادہ سخت قوانین‘ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تھائی فوج کے اس اقدام پر انہیں اس لیے تشویش ہے کہ یوں موجودہ وزیر اعظم کو ایسے لامحدود اختیارات دے دیے گئے ہیں، جن پر ملکی عدلیہ کسی بھی طرح نظر نہیں رکھ سکے گی۔

Schweiz UN Menschenrechtsrat Rede Al Hussein
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسینتصویر: Reuters/D. Balibouse

واشنگٹن کی تشویش

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ واشنگٹن کو تھائی لینڈ میں فوج کے فیصلوں پر تشویش ہے اور امریکا چاہتا ہے کہ تھائی شہریوں کے خلاف مقدمات کی فوجی عدالتوں میں سماعت کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی مبینہ ملزمان کے بغیر کسی عدالتی کارروائی کے قید میں رکھے جانے کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے اور عام شہریوں کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کر سکیں۔ اسی طرح کئی تھائی تجزیہ کاروں نے بھی یہی کہا ہے کہ ملک میں قانونی حوالے سے سب کچھ پہلے ہی کی طرح ہے، بس مارشل لاء کا نام بدل دیا گیا ہے۔

فوجی حکومت کی وضاحت

بنکاک میں فوجی حکومت نے اپنے نئے اقدامات پر ملک کے اندر اور باہر سے کی جانے والی شدید تنقید کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے قانونی فیصلے ’امن عامہ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری‘ تھے۔ نائب وزیر اعظم پراوِت وَونگسُووان نے صحافیوں کو بتایا، ’’ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ آنے والے کل کے دن ملک میں کیا کچھ ہونے والا ہے، جب کہ ہم ابھی تک بری طرح تقسیم کا شکار ہیں۔ اس تقسیم کے خاتمے کے لیے ہمیں ان قوانین کی ضرورت ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید